• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کسٹمر کے آرڈر پر مال منگوانا

استفتاء

**الیکٹرک میں الیکٹریشن، الیکٹرک اور ہارڈ ویئر سے متعلق سامان مثلاً پنکھے، بجلی کے بٹن، انرجی سیور LED بلب، تار کوائل شپ (ایک خاص قسم کی مہنگی تار) رائونڈشپ تار (خاص قسم کی تار جو بنڈل کی شکل میں ہوتی ہے اور کسٹمر کی ضرورت کے مطابق اس کو بنڈل سے کاٹ کر دی جاتی ہے) وغیرہ کی فروخت کی جاتی ہے۔  مارکیٹ میں کسٹمر کے مطالبے پر مال منگوانے کی دو صورتیں رائج ہیں:

-1            پہلی صورت یہ ہوتی ہے کہ کسٹمر ایڈوانس رقم دے کر بتادیتاہے کہ مال جب  ** میں پہنچ جائے تو مجھے بھیج دینا۔

-2            دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایڈوانس رقم کی ادائیگی کے وقت بتادیتاہے کہ جب مال  ** میں پہنچ جائے تو مجھے کال کر دینا، میں آکر آپ سے خود وصول کر لوں گا۔

ایسے معاملات میں  ** کسٹمرز سے ایڈوانس رقم اس لیے لیتی ہے کہ بعض آئٹمز ایسی ہوتی ہیں جو  ** میں فروخت ہی نہیں ہوتیں یا اگر فروخت بھی ہوں تو بہت کم کسٹمرز کو ان کی ضرورت پڑتی ہے، اس لیے ایسی آئٹمزہم پہلے سے خرید کر اپنے پاس نہیں رکھتے، ایسی آئٹمز اگر کسٹمرسے ایڈوانس رقم لیے بغیر اگر ہم خرید لیں تو بعض اوقات گاہک کو مطلوبہ چیز کسی اور جگہ سے سستے داموں میں مل جاتی ہے یا کسٹمر کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو وہ اس چیز کو لینے نہیں آتے۔ جس سے کمپنی کو پریشانی ہوتی ہے اس سے بچنے کے لیے ایڈوانس رقم لی جاتی ہے تاکہ وہ مال خریدنے کا پابند ہو جائے۔

-3            مذکورہ دونوں صورتوں میں اگر ایڈوانس لینے کے بعد کسٹمرز کے لیے مال منگوا لیا جائے اور وہ مقررہ وقت پر اسے لینے کے لیے نہ آئے تو  ** کی کوشش ہوتی ہے کہ کمپنی کو وہ مال واپس کردے لیکن اگر کمپنی مال واپس نہ لے تو  ** اس کو فروخت کرنے کی کوشش کرتی ہے، اب اگر وہ چیز پوری قیمت پر فروخت ہو جائے تو **  پیسے لے کر کسٹمر کو اس کی ایڈوانس رقم واپس کر دیتی ہے۔ لیکن اگر وہ چیز اپنی پوری قیمت پر فروخت نہیں ہوتی تو  ** اس کو کم قیمت پر فروخت کر دیتی ہے اور کسٹمر کی دی ہوئی ایڈوانس رقم سے کمی پوری کر کے بقیہ رقم کسٹمر کو واپس کر دیتی ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

نوٹ: کم قیمت پر فروخت ہونے کی بعض اوقات یہ وجہ بھی ہوتی ہے کہ کسٹمر کے آرڈر پر منگوایا ہوا مال یکمشت پورا کا پورا نہیں بکتا بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے بیچنا پڑتا ہے مثلاً 36MM کی تار جو 80 میٹر کی کسٹمر نے منگوائی اور وہ لینے نہ آیا اب جب  ** اس کو ہول سیل گاہکوں پر فروخت کرے گی تو عام طور پر کسٹمر کو اتنی مقدار کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کسی کو 10میٹر کسی کو 20 میٹر اور کسی کو 30 میٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو ایسی صورت میں متعین 20 یا 30 میٹر تار کٹنے کے ساتھ ساتھ تار زیادہ کٹ جاتی ہے۔ اس صورت میں تھوڑی تھوڑی فروخت ہونے سے تار کی مقدار میں کافی حد تک کمی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ کمپنی کی طرف سے تار مشینوں کے ذریعے ناپی جاتی ہے اور کمپنی زیادہ مقدار میں دیتے وقت پوری پوری ناپ کر دیتی ہے جب کہ  ** کے ہاں جب تار تھوڑی مقدار میں فروخت ہوتی ہے تو تار کچھ زیادہ کٹ جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ قیمت وصول نہیں ہوپاتی جس پر تار خریدی گئی تھی۔ تو اس طرح جب فروخت میں نقصان ہو جائے تو اس نقصان کو کسٹمر کی ایڈوانس رقم سے پورا کیا جاتا ہے۔

مذکورہ بالا صورتوں کا شرعاً کیا حکم ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکور ہ بالاصورتوں میں ایڈوانس رقم لے کر مال منگوانا شرعا وعدہ بیع ہے جو کہ درست ہے نیز مذکورہ صورتوں میں اگر کسٹمر مال لینے سے انکار کر دے یا مقررہ وقت پر مال لینے نہ آئے اور **کے لیے انتظار کرنا بھی مشکل ہو تو  ** وہ سامان اس کمپنی کو بھی واپس کر سکتی ہے جس سے وہ خریدا تھا اور اگر وہ واپس نہ لے تو کسی اور کو بھی فروخت کر سکتی ہے کسی اور کو فروخت کرنے میں جو حقیقی نقصان ہو اس کی تلافی ایڈوانس لی ہوئی رقم سے کر سکتی ہے۔

نوٹ: مذکورہ صورتوں میں **کے لیے کسٹمر کو سامان دینے سے پہلے ایڈوانس لی ہوئی رقم کو استعمال کرنا جائز نہیں۔

۱۔ السنن للنسائي: (ص ۲۳۸۶، کتاب البيوع، بيع ماليس عند البائع):

’’قال رسول الله ﷺ ’’ليسَ علٰي رجلٍ بَيعٌ۔ فيمَا لَا يملک۔‘‘

(۲) الهندية: (۳/۲: کتاب البيوع):

ان يکون مملوکاً في نفسهٖ وأن يکون ملک البائع فيما يبيعه لنفسهٖ۔

(۳) دررالحکام : (۱/۵۱، المادة : ۴۴،۴۳)

’’المعروف عرفا کالمشروط شرطا۔۔۔المعروف بين التجار کالمشروط بينهم۔۔۔‘‘

(۴)         بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (۲/۱۹۷ عقود التوريد والمناقصه۔):

ان اثر الزام هذه المواعدة ان يجبر کل واحد من الطرفين علي انجاز وعده من قبل الحاکم، و ان امتنع احد منها عن الوفاء بوعده بدون عذر و تضرر به الاخر ضررا فعلياً، فان المتخلف يعوضه عن الضرر الفعلي الحقيقي۔

(۵) سنن الترمذي: (باب ماذکر في الصلح بين الناس،  رقم :۱۳۵۲):

قال النبي ﷺ  ’’المسلمون عليٰ شروطهم الاشرطاً حرم حلالاً أوأحل حراماً‘‘

(۶)         دررالحکام: (۱/۱۲۴):

(المادة ۱۵۳) الثمن السمي هوالثمن الذي يسميه و يعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء کان مطابقًا للقيمة الحقيقية أو ناقصاً عنها أو زائداً عليها۔

(۷)         الفقه الحنفي وأدلته: (۲/۱۵):

مبادلة المال المتقوم بالمال المتقوم تمليکاً و تملکاً بالتراضي۔

(۸)         البحر الرائق :  (۵/۲۸۱):

وأما شرائط الصحة۔۔..ومنها أن يکون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فالمجهول جهالة مفضية إليها غير صحيح۔

(۹)         الفتاوي الهندية (۳/۴):

إذا قال البائع اشتر مني فقال اشتريت فلاينعقد مالم يقل البائع بعت أو يقول المشتري بع مني فيقول بعت فلا بدمن أن يقول ثانيا اشتريت۔

(۱۰)       فقه البيوع (۱/۳۴):

وصيفة الاستقبال لاينعقد بها البيع لأنه مساومة او وعد فمن قال بعني هذا الثوب بعشر فهده مساومة و اذا قال ابيعک فهذا وعد۔

(۱۱)       فقه البيوع: (۱/۱۱۹):

ويجب التفريق هنا بين العربون وما يسمي في عرفنا المعاصر ’’هامش الجدية‘‘ (Earnest Money)، فان أحکام العربون انما تتأتي في البيع المعقود المنجز، فالبيع في العربون تام غير أن المشتري اشترط الخيار لنفسه، أما اذا لم يکن البيع معقودا والمتبايعان في مرحلة الوعد فقط فلا يجري فيه أحکام العربون حتي عند الامام أحمد رحمه الله تعالي، وقد جرت العادة في بعض المعاملات اليوم أن أحد طرفي العقد يطالب الآخر بدفع بعض المال عند الوعد بالبيع قبل انجاز العقد، وذلک للتأکد من جديته في التعامل، وهذا کما يشترط طالب العروض في المناقصات أن يقدم صاحب العرض مبلغا يثبت جديته في التعامل، وکما جرت العادة في بعض البلاد أن المشتري يقدم مبلغا من الثمن الي البائع قبل انجاز العقد، وذلک لتأکيد وعده بالشراء، ويسمي في العرف ’’هامش الجدية‘‘ أو ’’ضمان الجدية‘‘ (وان لم يکن ضمانا بالمعني الفقهي) فهذه الدفعات ليست عربونا، وانما هي أمانة بيد البائع تجري فيه أحکام الأمانات

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved