- فتوی نمبر: 19-385
- تاریخ: 25 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > غصب و ضمان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں :
1۔ہمارے ہاں ایک پرائیویٹ سکول ہے اس میں ایک غیر حاضری پر پچاس روپے جرمانہ لیتے ہیں ۔براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ مذہب احناف میں تعزیر بالمال جائز ہے کہ نہیں ؟زید کا موقف ہے کہ ان دو شرطوں کے ساتھ تعزیر بالمال جائز ہے
- اگر پہلے سے شرائط میں ڈسپلن کے لیے مذکور ہو۔
- یہ پیسہ اسکول کے رفاہ عامہ میں استعمال ہوتا ہو ،(یعنی سکول کے بچے اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو ں)کیونکہ امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تعزیر بالمال جائز ہے۔
بکر کا موقف ہے کہ احناف کے ہاں کسی بھی صورت میں تعزیربالمال جائز نہیں ،یہی قول مذہب احناف میں راجح ہے۔ مفتی صاحب رہنمائی فرمائیں کہ مذہب احناف میں راجح قول کس کا ہے؟ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کا یا امام ابو یوسف ؒ کا؟
- زید ایک سرکاری کالج میں ملازم ہے ،اس کا کہنا ہے کہ ہمارے کالج میں سٹوڈنٹ سے زیادہ غیرحاضری پر جرمانہ لیتے ہیں اور یہ جرمانہ کالج کے پرنسپل صاحب کے پاس جمع ہوتا ہے جس کوریزرو فنڈ کہتے ہیں پھر سال کے آخر میں پرنسپل صاحب گریڈ کے حساب سے اساتذہ اور کالج کے اور ملازمین پر یہ رقم تقسیم کرتے ہیں۔
شریعت کی رو سے تقسیم کا یہ طریقہ کیسا ہے ؟اور اساتذہ اور ملازمین کے لیے یہ رقم لینا جائز ہے یا نہیں ؟اگر جائز نہیں تو ان پیسوں کا کیا کریں؟تحقیقی جواب دے کر مشکور فرمائیں۔(سائل:حافظ دلاور کوہاٹی)
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔بکر کا قول راجح ہے کیونکہ تعزیر بالمال کے جواز کے بارے میں امام ابویوسف رحمہ اللہ کی طرف جو روایت منسوب ہے وہ اول تو ضعیف ہے اور دوسرے وہ حاکم کے ساتھ خاص ہے اور تیسرے حاکم بھی اس رقم کو اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتا بلکہ یا تو واپس لوٹانا ضروری ہے اور واپس لوٹانا مفید نہ ہو تو رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کرنا ضروری ہے ۔ جبکہ طرفین اور امام ابو یوسف رحمہم اللہ کی صحیح روایت اور ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے نزدیک تعزیر بالمال حاکم کے لیے بھی جائز نہیں ۔
2۔مذکورہ طریقہ ناجائز ہے اس لیے اساتذہ وہ پیسے نہ لیا کریں اور اگر لے لیے ہیں تو واپس کردیں یا رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کردیں۔
مسند أحمد – الرسالة (34/ 299)
أَلَا لَا تَظْلِمُوا أَلَا لَا تَظْلِمُوا أَلَا لَا تَظْلِمُوا إِنَّهُ لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ
البحر الرائق (5/ 44)
ولم يذكر مُحَمَّدٌ التَّعْزِيرَ بِأَخْذِ الْمَالِ وقد قِيلَ رُوِيَ عن أبي يُوسُفَ أَنَّ التَّعْزِيرَ من السُّلْطَانِ بِأَخْذِ الْمَالِ جَائِزٌ كَذَا في الظَّهِيرِيَّةِ
وفي الْخُلَاصَةِ سَمِعْت عن ثِقَةٍ أَنَّ التَّعْزِيرَ بِأَخْذِ الْمَالِ إنْ رَأَى الْقَاضِي ذلك أو الْوَالِي جَازَ وَمِنْ جُمْلَةِ ذلك رَجُلٌ لَا يَحْضُرُ الْجَمَاعَةَ يَجُوزُ تَعْزِيرُهُ بِأَخْذِ الْمَالِ اه وَأَفَادَ في الْبَزَّازِيَّةِ أَنَّ مَعْنَى التَّعْزِيرِ بِأَخْذِ الْمَالِ على الْقَوْلِ بِهِ إمْسَاكُ شَيْءٍ من مَالِهِ عند مُدَّةً لِيَنْزَجِرَ ثُمَّ يُعِيدُهُ الْحَاكِمُ إلَيْهِ لَا أَنْ يَأْخُذَهُ الْحَاكِمُ لِنَفْسِهِ أو لِبَيْتِ الْمَالِ كما يَتَوَهَّمُهُ الظَّلَمَةُ إذْ لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ من الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ وفي الْمُجْتَبَى لم يذكر كَيْفِيَّةَ الْأَخْذِ وَأَرَى أَنْ يَأْخُذَهَا فَيُمْسِكَهَا فَإِنْ أَيِسَ من تَوْبَتِهِ يَصْرِفُهَا إلَى ما يَرَى
وفي شَرْحِ الْآثَارِ التَّعْزِيرُ بِالْمَالِ كان في ابْتِدَاءِ الْإِسْلَامِ ثُمَّ نُسِخَ اه وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَذْهَبَ عَدَمُ التَّعْزِيرِ بِأَخْذِ الْمَالِ
حاشية ابن عابدين (4/ 61)
مطلب في التعزير بأخذ المال قوله ( لا بأخذ مال في المذهب ) قال في الفتح وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز اه ومثله في المعراج وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف قال في الشرنبلالية ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اه ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان
قوله ( وفيه الخ ) أي في البحر حيث قال وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عند مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ ورأى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى وفي شرح الآثار التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ اه
درر الحكام شرح غرر الأحكام (5/ 350)
وَأَمَّا بِالْمَالِ فَصِفَتُهُ أَنْ يَحْبِسَهُ عَنْ صَاحِبِهِ مُدَّةً لِيَنْزَجِرَ ثُمَّ يُعِيدُهُ إلَيْهِ كَمَا فِي الْبَحْرِ عَنْ الْبَزَّازِيَّةِ
وَلَا يُفْتَى بِهَذَا لِمَا فِيهِ مِنْ تَسْلِيطِ الظَّلَمَةِ عَلَى أَخْذِ مَالِ النَّاسِ فَيَأْكُلُونَهُ
شرح الوقاية لعلي الحنفي (6/ 37)
وعن أَبي يوسف: يجوز للسلطان أَن يعزِّر بالمال (مثل أَموال البغاة فليُحفظ). وقال أَبو حنيفة ومالك والشافعيّ وأَحمد: لا يجوز.
امداد الفتاوی(2/ 544)ميں ہے:
الجواب: نمبر۱: علامہ شامیؒ نے حاشیہ درمختار کی جلد ثالث باب التعزیر میں تصریح کی ہے کہ صرف امام ابو یوسفؒ سے جرمانہ کے جواز کی روایت منقول ہے اور وہ بھی ضعیف باقی اور علماء اور ائمہ کے نزدیک جائز نہیں اور جب روایت ضعیف ہے قابلِ عمل نہیں ہوسکتی اس کے علاوہ اُس روایت میں بھی صرف صاحب سلطنت یا سلطنت کو اجازت ہے زمیندار بحیثیت زمینداری حاکم نہیں ہے اُس میں اور کاشتکار یا رعایا میں تعلق اجارہ و استیجار کا ہے اور پھر حاکم کے لئے بھی اس لئے جواز کا فتویٰ دینے کو منع کیا گیا ہے کہ لوگوں کو ظلم کرنے کا بہانہ ہاتھ آجائے گا۔ عبارت علامہ کی یہ ہے۔
قال في الفتح: وعن أبي یوسف رحمه الله یجوز التعزیر للسلطان بأخذ المال و عندهما وباقی الأئمة لایجوز ومثله في المعراج وظاهره أن ذلک رواية ضعیفة عن أبي یوسف رحمه الله قال في الشرنبلالیة: ولایفتی بهذا لما فیه من تسلیط الظلمة علیٰ أخذ مال الناس فیأکلونه
اور ذرا آگے چل کر علامہ نے نقل کیا ہے کہ سلطان کو بھی صرف خزانہ کے عملہ کے جرمانہ کی اجازت ہے اور وہ بھی اِس شرط سے کہ ملکی خزانہ میں داخل کردے اُس مقام کی عبارت یہ ہے۔
وسیذکر الشارح في الکفالة من الطر سوسي أن مصادرة السلطان لأرباب الأموال لایجوز إلا لعمال بیت المال أي إذا کان یردها لبیت المال۔
غرض اول تو سارے ائمہ عدم جواز کی طرف گئے ہیں پھر ابو یوسفؒ سے بھی روایت ضعیف اور پھر وہ خاص سلطان کے ساتھ اور اُس میں بھی تخصیص عاملین خزانہ کی پھر اُس میں شرط ادخال خزانہ کی پس اس وقت رؤساء و امراء میں جس جرمانہ کا رواج ہے یہ کسی کے نزدیک جائز نہیں ۔
نوٹ:مذکوره جواب راجح مرجوح کي حدتک ہے یہ الگ بات ہے کہ بعض مواقع پر ضرورت کی وجہ سےمرجوح قول کوبھی اس کی شرائط کےساتھ لیا جاسکتا ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved