• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جائیداد کی تقسیم

استفتاء

محترم مفتی صاحب آپ ہماری قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

1۔میرے تایا جی اس دنیا میں نہیں رہے انکی کوئی اولاد بھی نہیں ہے۔

2۔تایا جی نے ایک بیٹی لےکر  پرورش کی  تھی جس کی شادی کردی ہے۔او ر اپنی زندگی میں  ہی ان کو ایک پانچ مرلے کا    مکان لےکر دے دیا تھا۔نیز  تایاجی نےان کے لیے کوئی وصیت بھی نہیں کی۔

3۔ان کے ایک بھائی ہیں جو ماں کی طرف سے سوتیلے اور باپ کی طرف  سے سگے ہیں۔

4۔ان کے ایک سگے بھائی بھی تھے جن کا پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا اس سگے بھائی کی اولاد میں  5 بھتیجے اور 8عدد بھتیجیاں سب حیات ہیں   ۔جن میں سے  3بھتیجوں اور 8بھتیجیوں کے لیے آٹھ لاکھ روپے کی وصیت کی تھی جوانہیں دیے جاچکے ہیں۔کیا ان کا باقی جائیداد میں حصہ بنتا ہے ؟ان کی باقی کل جائیداد2 مرلے ہے جس کی مالیت 30لاکھ روپے ہے۔

5۔آپ مفتی صاحب فتوی صادر فرمائیں اور حصوں کی  ترتیب بتادیں  تاکہ جو  دین میں جس کسی کا بھی حصہ ہے وہ دیا

جا سکے تاکہ  سند رہے۔

نیز تایا جان کے والدین اور بیوی بھی  انکی زندگی میں فوت ہوگئے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  میں ان کی باقی کل جائیداد کے مالک ان کے وہ بھائی ہیں جو ماں کی طرف سے سوتیلے اور باپ کی طرف سے سگے ہیں۔باقی حقیقی  بھائی  کی اولاد (یعنی میت کےبھتیجے ،بھتیجیوں  )اور لے پالک  بیٹی کا میراث میں  کوئی حصہ نہیں بنتا۔

در  مختار(10/550)میں ہے:

 ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ‌ثم ‌جزء ‌أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (‌ثم ‌جزء ‌أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) ……..

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved