• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

45 سال بعد وراثت کی تقسیم

استفتاء

*** کی اولاد میں 3بیٹے شفاعت *** ، *** ***، *** ***اور3بیٹیاں ہیں۔ کل 6بچےہیں۔ *** کی وفات کے وقت ان کی  وراثت میں 3 مکان تھے ۔

1-        ڈیڑھ مرلہ شاہ عالمی میں تھا جس میں  2بیٹوں (***،***) کی رہائش تھی ۔

2-                4مرلہ مکان بلال گنج  میں تھا جس میں بڑے بیٹے (شفاعت ***) کی رہائش تھی۔

3-                 14 مرلہ کی کٹری جو  مصری شاہ کے  بدنام زمانہ بدمعاشوں کے قبضہ میں تھی۔

اولاد نے شرعی تقسیم کے بجائے باہمی رضامندی سے تقسیم کا طریقہ طے کیا جو درج ذیل ہے:

دو بڑے بھائیوں(*** *** اور شفاعت ***) نے اپنے اپنے رہائشی مکانوں کو اپنا اپنا وراثتی حصہ کروایا ، ڈیڑھ مرلہ  شاہ عالمی والا مکان *** نے اپنے نام کروایا اور چار مرلہ بلال گنج والا مکان شفاعت *** نےاپنے  نام کروایا اور تیسرا مکان 14 مرلہ کی کٹری جو بدمعاشوں کے قبضہ میں تھی اپنے چھوٹے بھائی(***)   اور بہنوں کی  وراثت میں دے دی اس ذمہ داری کے ساتھ کہ *** بہنوں کا وراثتی حصہ اس کٹری میں سے دے گا ۔

*** *** کٹری کا قبضہ لینے کا اہل نہ تھا تقسیم کے بعد وہ قبضہ نہ لے سکا  بالآخر مجبور ہوکر قیمتی مکان کو کم قیمت پر انہی قابضو ں کو بیچنے پر مجبور ہوا  تمام فریقین کے علم میں تھا کہ قبضہ بدمعاشوں کے پاس ہے۔ ان بدمعاشوں کی  موجودگی میں خریدار  تو بہت دور کی بات کوئی جگہ دیکھنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ 45 سال پہلے مذکورہ جگہ انہی قابضین کو 27500 روپے کے عوض فروخت کی ، فروختگی کے کاغذوں پر تقریباً دس ہزار خرچہ آیا تھا ۔ *** *** اس رقم سے بہنوں کا حصہ نہ دے سکا  جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا ۔ بہنیں اپنے وراثتی  حصے کا تکرار کرتی رہیں  اس کے بعد *** ***  کی اولاد نے اپنے باپ کے نام تمام جائیداد بنائی اور آجکل ان کی وفات کے بعد آپس میں شرعی تقسیم کررہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ *** *** نے جو اپنی بہنوں کو حصہ نہیں  دیا تھا  اب  بہنیں اور *** *** فوت ہوچکے ہیں اور ان کی اولادیں موجود ہیں تو   *** *** کی اولاد کی اپنے باپ کے فرائض کے حوالہ سے کیا شرعی ذمہ داری بنتی ہے؟

*** *** نے اپنے والد کی وراثت سے 27500 روپے وصول کیے ہیں جن میں سے تقریبا دس ہزار روپے کاغذوں  پر خرچہ آیا۔بہنوں کا حصہ ادا کرنے کے لیے 45 سال پہلے کی رقم کا  اگر آج کی مالیت  کے لحاظ سے حساب لگانا ہو تو کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے؟

وضاحت مطلوب ہے: (1) کیا  *** کی وفات کے وقت  ان کی اہلیہ اور  والدین حیات تھے؟ (2) کیا بہنوں نے رضامندی  کا اقرار زبان سے کیا تھا؟ (3)کیا*** کی اہلیہ نے اپنی رضامندی سے اپنا حصہ چھوڑا ؟(4) *** کے ترکہ میں تین گھروں کے علاوہ اور کیا تھا؟

جواب وضاحت: (1) *** کے انتقال کے وقت  ان کی اہلیہ حیات تھیں اور  والدین کا  پہلے ہی انتقال ہوچکا تھا۔ (2) بہنوں نے اپنی زبان سے رضامندی ظاہر کی تھی کہ ہم 14 مرلے والے گھر میں سے حصہ لینے پر راضی ہیں۔ (3)*** کی اہلیہ نے بھی رضامندی سے کہا تھا کہ میں  نے کچھ نہیں لینا ہے۔(4) ترکہ میں اور کچھ نہ تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  14 مرلے والے مکان کی قیمت  ( 27500 روپے) میں سے کاغذات کا خرچہ نکال کر باقی رقم 17500 روپے کے 5 حصے کردیئے جائیں  گے،جن میں سے  2 حصے *** *** کے ہوں گے اور باقی 3 حصے *** *** کی تینوں بہنوں میں برابر تقسیم ہوں گے چنانچہ ہر بہن 3500 روپے کی حقدار ہوگی اس صورت میں اگر بہنوں کی اولادیں چاہیں تو یہی رقم لے لیں یا آج سے پینتالیس سال پہلے3500   روپے کی  جتنی چاندی آتی تھی اتنی چاندی لے لیں۔

صورت تقسیم درج ذیل ہے:

5                 ***                (کٹری کی تقسیم)

بیٹا (اقبال احمد)بیٹیبیٹیبیٹی
عصبہ
2111

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved