• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مغرب اور اذان کے وقت بیت الخلاء جانا

استفتاء

کیا  خاص مغرب کے وقت اور اذان کے وقت بیت الخلاء نہیں جانا چاہیئے کیونکہ اس وقت وہاں اثرات ہوتے ہیں۔

کیا مذکورہ بات ٹھیک ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مغرب یا کسی بھی اذان کے وقت بیت الخلاء جا سکتے ہیں ،لیکن جب اذان ہو رہی ہو تو  زبان سے اذان کا جواب دینا مستحب ہے اور  بیت الخلاء میں زبان سے اذان کا جواب نہیں دے سکتے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ اذان کے وقت بیت الخلاء میں نہ جائے اور اذان کا زبان سے جواب دے ،تا ہم اگر شدید تقاضا ہو تو پھر کوئی حرج نہیں۔

فتاوی دار العلوم دیو بندصفحہ نمبر328 سوال نمبر 22582 ہے:

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں جب اذان کا وقت ہو گیا اس وقت ہم بیت الخلاء میں استنجاء وغیرہ کے لیے جاسکتے ہیں یا نہیں یا صرف مغرب کی اذان کے وقت نہیں جاسکتے یا جاسکتے ہیں؟کیا اذان کے وقت بیت الخلاء میں جانا مکروہ ہے؟

جواب :اذان کے وقت استنجاء وغیرہ کے لیے جاسکتے ہیں بالخصوص جب کہ تقاضا شدید ہو، البتہ بہتر یہ ہے کہ اذان کے وقت نہ جائیں اور خاموش ہوکر اذان سنیں اور اس کا جواب دیں کیوں کہ اذان درحقیقت نداء الٰہی ہے، اسکا ادب واحترام یہ ہے کہ آدمی جس کام میں مشغول ہے، یا جس کام کو کرنا چاہتا ہے اس کو موقوف کردے او راذان سن کر جواب دے، مغرب کی اذان کے بعد جماعت کھڑی ہونے میں وقفہ چونکہ بہت کم رہتا ہے، اس لیے مغرب سے پہلے ہی استنجاء وغیر سے فارغ ہوجانا چاہیے تاکہ جماعت فوت نہ ہو، لیکن اگر کسی کو عین اسی وقت استنجاء وغیرہ کی شدید ضرورت محسوس ہو تو وہ جاسکتا ہے۔

رد المحتار علی الدر المختار جلد 2 صفحہ نمبر 65 پر ہے:

 (ویجیب) وجوبا، وقال الحلوانی ندبا، والواجب الإجابة بالقدم (من سمع الأذان) ولو جنبا لا حائضا ونفساء وسامع خطبة وفی صلاة جنازة وجماع، ومستراح واکل و تعلیم علم وتعلمه بخلاف اذان(قوله: ومستراح) أی بیت الخلاء”

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved