• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جہیز کے سامان کی تقسیم کی ایک صورت

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیوی کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کے والدین نے جو سامان بطور جہیز اسے دیا  تھا وہ اس سامان کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں، میری بیوی کے ورثاء میں دوبیٹے ، شوہر اور والدین ہیں،  شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں کہ یہ سامان اب کس کی ملکیت ہے؟  میرے بچے اس کے مالک ہیں یا میری بیوی کے والدین؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

لڑکی کو اپنے والدین کی طرف سے ملنے والا  جہیز کا سامان لڑکی کی ملکیت ہوتا  ہے،لہذا مذکورہ صورت میں جہیز کا سامان آپ کی بیوی کا ترکہ ہے اوروہ اس کے تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا،  تمام سامان کے 24 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 6 حصے (25%) شوہر کو، 4 حصے (16.666%) والدہ کو ،   4 حصے (16.666%) والد کو اور 5 حصے (20.833%)    ہر ایک بیٹے کو ملیں گے۔

درمختار (4/304) میں ہے:

(جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعده ان سلمها ذلك فى صحته) بل تختص به (وبه يفتى) وكذا لو اشتراه لها في صغرها والوالجية.

فتاوی دارالعلوم دیوبند (8/258) میں ہے:

سوال: ***نے اپنی زوجہ رحمت کو طلاق بائن دے دی‘ بوقت عقد زوجہ کے والد نے اپنی لڑکی رحمت کو جہیز میں برتن وغیرہ دیئے تھے وہ کس کی ملک ہیں ؟

(الجواب) وہ اشیاء و سامان جہیز کا رحمت کی ملک ہے محمد خلیل کا اس میں کچھ حق نہیں ہے (۱)( پس معلوم ہوا کہ جہیز لڑکی کا حق ہوتا ہے لڑکے کا نہیں ‘  )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved