• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عاقل بالع بھائی جو کمانے کے قابل ہو اس کی ذمہ دوسرے بھائیوں پر نہیں ہے۔

استفتاء

(1)ہمارے مذہب میں بڑے بھائی پر چھوٹے بھائیوں کے حقوق کی حیثیت کیا ہے؟(2)اوریہ حقوق کس قسم کے ہیں؟ (3) اگر چھوٹے بھائی کوئی کام کاج نہیں کرتے اوراپنے بھائی سے ایسی باتوں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں جو بڑے بھائی کے اختیار میں نہ ہوں تو ایسے میں اگر ماں بھی ان چھوٹے بیٹوں کی سائڈ پر ہو اور ان کی ناجائز ڈیمانڈز کے لیے بڑے بیٹے پر غیر ضروری بوجھ اوردباؤ ڈالتی ہو تو بڑا بیٹا کیا کرے ؟ (4)اگر وہ پورا نہیں کرتا جو کہ اس کےبس میں نہیں تو کیا ماں اس بات کے کہنے میں حق بجانب ہے کہ اسے کہے کہ تم کو ہم نے پڑھایا ہے اورتم پرخرچے کئے ہیں تو اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ اب یہ بھائی جوبھی کہیں وہ آپ پورا کریں حالانکہ پڑھائی کے مواقع سب کے پاس برابر کے تھےبلکہ چھوٹے بیٹوں کے پاس بڑے بیٹے سے زیادہ اچھے مواقع تھےلیکن باقی دوبیٹےنہ پڑھے اورصرف بڑا بیٹا پڑھ سکا۔

تفصیل یہ ہے کہ میرے والد کی وفات 2006میں ہوئی اس وقت ایک بھائی چوتھی جماعت میں پڑھ رہے تھے ایک بھائی بی اے کررہاتھا ۔2010 میں ،میں سعودی عرب آیا اور یہاں دومہینے کےبعد مجھے پاکستانی اسکول میں ٹیچر کی نوکری مل گئی ،میں پاکستان میں اپنے بھائیوں اور امی کےساتھ 6سال پشاور میں رہا ،باپ جوکہ سرکاری ملازم تھے جب وفات پاگئے تو کچھ رقم حکومت سے ملی جو کہ ماں کے کہنے پر ایک بھائی جس کا نام ارشد ہے کودی اور وہ  رقم وہ واپس نہیں لائے ۔یہ رقم 8لاکھ پچاس ہزار روپے تھی لیکن اس کو ہم نے کچھ نہیں کہا جب میں جدہ آیا تو پھر ایک بھائی جو سب سے چھوٹا تھا اس کو ایک پرائیویٹ کالج سے ایف ایس سی کرایا اورپھریونیورسٹی میں داخل کرایا وہاں سے چھوڑا کرپھر ایک اور میں داخل کرادیا اورپھر آخر میں پشاور یونیورسٹی میں داخل کر ایا وہاں سے چھوڑا پھر ایک اور میں داخل کرایا ،اس سے پہلے دونوں یونیوریسٹیز پرائیویٹ تھیں اس بھائی کانا آصف ہے ارشد کو پاکستان میں کام کےلیے میں نےسعودی عرب سے تین لاکھ روپے بھیجے لیکن اس نےجوکام شروع کیا وہ ادھورا چھوڑ کربلکہ دوسرے لوگوں کے ہاتھ میں چھوڑ کرگھر پر بیٹھ گئے آخر میں کچھ سامان جو کہ رہ گیا واپس گھر لاکر تہہ خانے میں ڈال دیا جو کہ خراب ہورہا تھا میں نے پاکستان چھٹیوں میں آکر ایک دوست کےہاتھ وہ سارا سامان بیچ دیا جو پیسے ملے اس کےساتھ کچھ اور پیسے ملاکر ارشد کو سعودی عرب بلالیا ۔یہاں اس کو کچھ لوگوں سے کہہ کر نوکری پرلگادیا جب ان لوگوں نے اس کو ٹرین (Train)کیا تو اس نے ان کےہاں کام کرنے سے انکار کردیا پھرایک اورجگہ کام شروع کیا لیکن ان لوگوں نے نکال دیا پھر کچھ عرصہ ایسے ہی یہاں رہ کرپاکستان واپس چلاگیا اورویزہ ختم کردیا ۔میں، آصف جو کہ چھوٹا بھائی ہے کو بھی سعودی عرب لے آیا لیکن وہ دو مہینے کے بعد چلاگیا اورواپس آنے کا کہہ کرواپس نہیں آیا دونوں پاکستان میں جاکر بیٹھ گئے کوئی کام بھی نہیں کررہے تھے۔2018میں ارشد کو میں نے 2350000روپے اپنے کاروبار کےلیے دیئے اوراس کو کہا کہ اس کےبعد میرے ساتھ تیرا کوئی کام نہیں ہوگا ،اس نےوہ پیسے پتہ نہیں کیا کئے کبھی کہتا ہےاس میں سے 12لاکھ مل گئے کبھی کہتا ہے اس  میں سے 10لاکھ مل گئے ۔آصف کو میں نے اس کے ایک سال کےبعد 12لاکھ دیئے ان پیسو ں کی اس نے ایک گاڑی خریدی ہے اور بس ۔کوئی کام نہیں کررہا ہے اور گھر پربیٹھا ہوا ہے کبھی کبھی گاڑی میں باہر گھومنے کے لیے نکل جاتا ہے ۔

میں نے اپنی ماں سے آصف کی شادی کی بات کی توماں کہتی ہے کہ اس کو کینیڈا یا جرمنی کا ویزہ لےکرکےدیدو پھر شادی کرے گا میری اتنی حیثیت نہیں ہے نہ جاب کرتا ہے نہ کوئی کوئی کاروبار کرتا ہے کچھ نہیں کرتا ۔کیینڈا اور جرمنی کے ویزے کے انتظار  میں بیٹھا ہے اپنی ماں کو میں تین دفعہ سعودی عرب عمرہ اور وزٹ پر لایا ہوں ۔2018تک میں پورے گھر کے خرچے کی ذمہ داری اٹھارہا تھا اب ارشد کی شادی بھی ہوچکی ہے اوراس کو میں نے 2350000روپےبھی دئیے ہیں آصف جو کہ چھوٹا بھائی ہے لیکن 28سال کا یا 27سال کا ہوگا دو سال کم زیادہ ۔اس کو بھی کام کے لیے 12لاکھ دیئے ہیں ۔

اب میرے اوپر ان دونوں کے کیا حقوق ہیں ؟وہ میری کوئی بات نہیں مانتے کہتے ہیں کہ آپ پر ہمارا حق ہے کہ ہمیں اچھے کاروبار اورہماری اچھی سیٹنگ کرکے دیں ۔پتہ نہیں یہ کیسا حق ہے جو کہ میری جان لے کر بھی ادا نہیں ہو گا۔اب میں اوسطا 30 ہزار روپے پاکستان بھیج دیتا ہوں اور امی کو کہاہوا ہے کہ یہ صرف آپ کےلیے ہیں باقی ان کو پینشن کے بھی 15یا20ہزار مل جاتے ہیں ۔اب میری ماں کہتی ہے کہ تم پورے گھر کے خرچے کی ذمہ داری اب بھی اٹھاؤ گے ۔میں کہتا ہوں نہیں ۔اب یہ دونوں بڑے ہیں اپنا کوئی کام کریں مجھے آپ فرمائیں میں ان حالات میں کیا کروں میں 30ہزار سے زیادہ بھی کبھی کبھی بھیج دیتا ہوں  لیکن ہمیشہ نہیں اوراب سعودی عرب کے حالات بھی پہلے والے نہیں رہےاورمیرے ساتھ جدہ میں میری اپنی فیملی بھی ہے بیوی اور دوچھوٹے بیٹے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جوتفصیل آپ نےبیان کی ہے اس کے لحاظ سے آپ پر اپنے بھائیوں کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی کیونکہ وہ خود عاقل بالغ ہیں اورکمانے کےقابل ہیں البتہ آپ کی والدہ اوربھائیوں کا مؤقف مذکورہ تفصیل سے ہٹ کرہو تو جواب پرنظر ثانی کی جاسکتی ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved