• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں جائیداد کی تقسیم

استفتاء

گزارش ہے کہ میں اپنی جائیداد اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے نام کرنا چاہتا ہوں اسی سلسلہ کے پیش نظر میں آپ سے شریعت کے مطابق آپ کی رائے لینا چاہتا ہوں مہربانی فرماکر میری رہنمائی فرمائیں آپ کی عین نوازش ہو گی۔

معاملہ کچھ اسطرح سے ہے کہ ساندہ کلاں لاہور میں چھ مرلہ میں میرا ڈبل سٹوری ایک مکان ہے میرے تین بیٹے اورتین بیٹیاں ہیں جو کہ سب شادی  شدہ ہیں ایک بیٹی طلاق ہوجانے کی وجہ سے میرے ساتھ رہ رہی ہے باقی دونوں بیٹیاں اپنے شوہر وں کے ہمراہ ان کےذاتی مکانوں میں خوش وخرم زندگی گزار رہی ہیں ایک چھوٹا بیٹا ہے اس نے اپنا ذاتی مکان بنالیا ہے اوروہ اس میں رہتا ہے باقی دوبیٹے ہیں ان کے پاس اپنا کوئی ذاتی مکان نہیں ہے وہ بھی میرے ساتھ رہتے ہیں۔میں نے اپنی جائیداد اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے نام منتقل کرنی ہے جس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ 3+3مرلے پر بنے ہوئے پورشن اپنے ان دو بیٹوں کو 50لاکھ روپے میں فروخت کردوں جو میرے ساتھ رہتے ہیں اور ان کے پاس ان کا کوئی ذاتی مکان نہیں ہے اوراس طرح سے جو رقم مجھے جائیداد فروخت کرنے کی صورت میں ملے گی وہ میں اپنے تمام بچوں میں تقسیم کردوں جو اس طرح سے ہے کہ دس دس لاکھ اپنے تینوں بیٹوں کو دوں اورپانچ ،پانچ لاکھ اپنی تینوں بیٹیوں کو دیدوں اورپانچ لاکھ میں خود رکھ لوں اس طرح کل رقم پچاس لاکھ روپے بنتی ہے یعنی بیٹوں کو دو حصے جبکہ بیٹیوں کو ایک حصہ دیاجائے گا۔یہاں یہ بات یاد رہے کہ میرے مکان کی مارکیٹ ویلیوتقریبا 80سے 90لاکھ تک ہے میں اپنا یہ مکان اپنے دوبیٹوں کو 50لاکھ میں اس لیے فروخت کررہا ہوں کہ ان دونوں بیٹوں کے پاس 25،25لاکھ سے زیادہ قوت خرید نہیں ہے اس لیے میں نے ایسا کیا ہے تاکہ جائیداد بھی ان کے پاس رہے اورسب بہن بھائیوں کو حصے بھی مل جائیں آپ کتاب وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ ایسا کرنے میں ،میں گناہ گار تو نہیں ہوں گا؟میری تینوں بیٹیاں اس فیصلےسے مطمئن نہیں ہیں جبکہ میرا تیسرا بیٹا عدیل احمد دو سال سے بےروزگار ہے اوربہت زیادہ مقروض ہے اس کو بھی مدد کی ضرورت ہے یہ اس کا بڑا پن ہے کہ وہ میرے فیصلے کی تائید کرتا ہے لیکن مجھے آپ کےبتانے سے یہ احساس ہورہا ہے کہ واقعی اس کے ساتھ میں ناانصافی کررہا ہوں،کیونکہ جن دوبیٹوں کو میں مکان

فروخت کروں گا ایک تو مکان سستا ملنے کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کو تقریبا 20،15لاکھ کافائدہ ہوگا اوردوسرے ان پچاس لاکھ میں سے بھی جب ان کو 10،10لاکھ واپس کردوں گا تو ان میں سے ہر ایک کو گویا تقریبا 30،25لاکھ ملیں گے جبکہ ایک بیٹے کو 10لاکھ اورہربیٹی کو 5،5لاکھ ملیں گے۔

تفصیل ذرائع آمدنی وارثان

1۔میرا بیٹا حافظ اخلاق احمد سرکاری ملازم ہے اورعنقریب ریٹائر منٹ لینے والا ہے اس کو گریجویٹی وغیرہ کے

تقریبا11لاکھ روپے ملیں گے اور اس کے علاوہ ان کے پاس دس سے بارہ لاکھ تک کازیور ہے جس کو بیچ کریہ لوگ مجھے ادائیگی کردینگے۔

2۔میرادوسرا بیٹا فرید احمد صدیقی بھی سرکاری ملازم ہے وہ بھی جیسے ہی ممکن ہوگا ادائیگی کردے گا مزید یہ کہ میرے اس بیٹے کو اس کے سسرال کی طرف سے اس کی بیوی کا حصہ ملے گا جس سے یہ ادائیگی کردے گا اپنی بیوی کی رضامندی سے ۔

3۔میراتیسرا بیٹا عدیل احمد ہے جو آج کل بے روزگار ہے اس کا گلش راوی میں اپنا ذاتی ڈبل سٹوری مکان ہے جس کے ایک پورشن کو وہ کرایہ پر دینے کی تیاری میں ہے جو کہ 30سے 35ہزار مہینہ کرایہ پر چڑھ جائے گا اوراس کے پاس اپنی گاڑی بھی ہے جسے وہ بطور ٹیکسی چلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

4۔میری ایک بیٹی کراچی اورایک بیٹی لاہور میں اپنے شوہروں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہیں ہیں۔

5۔میری ایک بیٹی مطلقہ ہے جو کہ میری کفالت میں ہے میں ایک پینشنر ہوں مجھے گورنمنٹ کےا دارے سے معقول پینشن ہر ماہ ملتی ہے اور میرے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد میری یہ بیٹی پینشن کی حقدار ہو گی جس سے اس کو مالی پریشانی نہیں ہوگی۔

حافظ اخلاق احمد

میں حافظ اخلاق احمد اپنے والد محترم کی تقسیم جائیداد کے فیصلے سے مطمئن ہوں اور جو حصہ مجھے مل رہا ہے میں اس پر راضی اورخوش ہوں اورمجھے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ حافظ اخلاق احمد

عدیل احمد

میں مسمی عدیل احمد اپنے والد محترم کے جائیداد کی تقسیم کے فیصلے سے بالکل متفق ہوں اورمجھے جو حصہ مل رہا ہے میں اس پر راضی اورخوش ہوں اورمجھے کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے ۔عدیل احمد

فرید احمد

میں مسمی فرید احمد صدیقی اپنے والد محترم کے جائیداد کی تقسیم کے فیصلے سے بالکل متفق ہوں اورجو شیئر مجھے اس جائیداد میں سے مل رہاہے میں اس پر رضامند اورخوش ہوں اورمجھے کسی قسم کا کوئی اعتراض نہ ہوگا۔فرید احمدصدیقی

فرحانہ خاتون

میں مسماۃ فرحانہ خاتون بنت جلیس احمد والد صاحب کے فیصلے سے بالکل اتفاق نہیں کرتی کیونکہ یہ فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے اس میں میرے بھائی عدیل کےساتھ ناانصافی ہے اور مجھے جو والد صاحب حصہ

دے رہے ہیں اس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

رخسانہ سالم

میں مسماۃ رخسانہ سالم بیان کرتی ہوں کہ میرے والد صاحب نے پچاس لاکھ کے حساب سے جائیداد کی تقسیم کا جوفیصلہ کیا ہے میں اس سے بالکل متفق نہیں ہوں کیونکہ اس میں میرے دوبھائیوں کو فائدہ اورتیسرے بھائی کو نقصان ہے جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے جوبھی حصہ ملے میں اس پر راضی ہوں۔رخسانہ سالم

نہایت قابل احترام مفتی صاحب!آپ سے بات چیت کرنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ واقعی میں اپنے چھوٹے بیٹے عدیل احمد کے ساتھ ناانصافی کررہا ہوں کیونکہ اس کو صرف 10لاکھ روپے حصہ کے دئیے جارہے ہیں جبکہ دوسرے دو بیٹوں کو دس ،دس لاکھ بھی دیئے جارہے ہیں اورساتھ ہی ساتھ تین تین مرلہ کے مکان بھی کم قیمت میں دونوں کو دئیے جارہے ہیں۔لہذا اب میں جناب مفتی صاحب کی رائے کے پیش نظر اپنے مکان کو مارکیٹ ویلیو یعنی اسی لاکھ لگاکر تینوں بیٹوں میں 20،20لاکھ روپے تقسیم کردونگا اور5،5لاکھ روپے اپنی تینوں بیٹیوں میں تقسیم کردونگا اورپانچ لاکھ میں خود رکھ لونگا۔

اگر میرا یہ عمل کتاب وسنت کی روشنی میں جائز ہے اورمیں کسی کی حق تلفی نہیں کررہا ہوں تو مجھے ایسا کرنے کی تحریری اجازت مرحمت فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی وراثت تقسیم کرنا چاہے تو اس میں افضل طریقہ یہ ہے کہ بیٹے، بیٹیوں کو برابر دے اور یہ بھی درست ہے کہ بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ دے۔ اور اگر کسی بیٹے، بیٹی  کو اس سے بھی کم وبیش دینا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے بشرطیکہ یہ فرق ایسا ہو کہ اس میں کسی بیٹے، بیٹی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔

آپ نے اپنی وراثت کی تقسیم کا جو طریقہ کار پہلے سوچا تھا اس میں ایک بیٹے اور تین بیٹیوں کو بہت کم حصہ مل رہا تھا جبکہ دو بیٹوں کو بہت زیادہ حصہ مل رہا تھا حالانکہ اتنی کمی، بیشی کرنے کی کوئی خاص وجہ بھی نہ تھی، لہٰذا وہ طریقۂ کار درست نہ تھا۔ موجودہ طریقۂ کار میں بھی اگرچہ بیٹوں کو برابر کا حصہ ملے گا اور بیٹیوں کو بہت کم ملے گا لیکن دو بیٹیوں کی مالی حالت اچھی ہے اور انہیں کم ملنے پر کچھ اعتراض بھی نہیں ہے اور بیوہ بیٹی کا سہارا پنشن سے ہو جائے گا اس لئے موجودہ طریقۂ کار کی گنجائش ہے۔

بخاری شریف (حدیث نمبر: 2447) میں ہے:

عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ أَعْطَانِي أَبِي عَطِيَّةً فَقَالَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي أَعْطَيْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِيَّةً فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ أَعْطَيْتَ سَائِرَ وَلَدِكَ مِثْلَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ فَاتَّقُوا اللهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ قَالَ فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِيَّتَهُ

ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیرﷺکہتے ہیں (میری والدہ نے میرے والد سے مطالبہ کیا کہ وہ مجھے اپنے مال میں سے ایک غلام ہدیہ کریں ۔ میرے والد نے ان کے مطالبہ کو ایک دو سال ٹالا لیکن پھر مجبور ہو کر) میرے والد نے مجھے (وہ غلام) ہدیہ (کرنے کا فیصلہ ) کر دیا (میری والدہ کو اتنی بات پر تسلی نہ ہوئی اس لئے توثیق کی خاطر میری والدہ) عمرہ بنت رواحہ نے کہا جب تک آپ اس پر رسول اللہﷺ کو گواہ نہ بنا لیں مجھے تسلی نہ ہو گی۔ میرے والد رسول اللہﷺکے پاس آئے اور کہا (میری بیوی عمرہ) بنت رواحہ نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس کے بیٹے کو اپنا غلام ہدیہ کر دوں تو میں نے عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو (غلام) ہدیہ (کرنا طے) کر دیا ہے لیکن اب اے اللہ کے رسول اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں (اس پر) آپ کو گواہ بنا لوں ۔ آپ ﷺنے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی باقی اولاد کو بھی اسی جیسا ہدیہ (دینے کا فیصلہ ) کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ۔ (اس پر) آپﷺ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان برابری اور انصاف کرو۔ اس پر میرے والد واپس آگئے اور ہدیہ (کا فیصلہ) واپس لے لیا۔

فتاویٰ شامیہ (8/583) میں ہے:

وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى

(قوله وعليه الفتوى) أي على قول أبي يوسف: من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد. رملي

خلاصۃ الفتاویٰ (4/400) میں ہے:

وفي الفتاوى رجل له ابن وبنت اراد أن يهب لهما شيئا فالأفضل أن يجعل للذكر مثل حظ الأنثيين عند محمد، وعند أبي يوسف بينهما سواء هو المختار لورود الآثار.

ولو وهب جميع ماله لإبنه جاز في القضاء وهو أثم نص عن محمد هكذا في العيون ولو اعطى بعض ولده شيئا دون البعض لزيادة رشده لا بأس به وإن كان سواء لا ينبغي أن يفضل

فتاویٰ عالمگیریہ (4/391) میں ہے:

(الباب السادس في الهبة للصغير) ‌ولو ‌وهب ‌رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved