• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تقسیم میراث کی صورت

استفتاء

میرے بہنوئی فوت ہوگئے ہیں وراثت میں انہوں نے 4000000چھوڑا ہے ان کی دوبیٹیاں اور چار بیٹے سب شادی شدہ ہیں اور ایک بیوہ ہیں ان کے زیر سرپرستی ایک نواسا ایک نواسی بھی ان کے پاس رہتے ہیں کیونکہ ان کی بیٹی کو طلاق ہوگئی تھی ۔اس کےبچے اوربیٹی کو والد نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔کیا وراثت میں نواسا اورنواسی کا بھی حصہ بنے گا؟ایک گھر ہے جس میں چاروں بیٹے ،والدہ رہتے ہیں۔ساڑھے چھ لاکھ انہوں نے قرضہ دینا تھا۔ ایک دوکان ہے ،آدھے بڑے بیٹے نے پیسے ڈالے تھے آدھے والد نے ۔اب وہ آدھی دوکان کے کیا سب وارث بنیں گے؟ جب وہ حیات تھےتو وہ کہتے تھے یہ میرے دوچھوٹے بیٹوں کی ہے لکھ کر نہیں دی زبانی کہتے تھے ۔اب آپ بتائیں اس میں بھی سب حصے دار بنتے ہیں؟اورایک بیٹے کو وہ کہتے تھے میں عمرہ کرواؤں گا ۔کیا اب ان کےپیسوں میں سے اس کو عمرے کے لیے پیسے دے سکتے ہیں۔

وضاحت مطلوب ہے:کیا والد نے اپنی حیات میں یہ دوکان ان دوبیٹوں کے قبضہ میں بھی دی تھی؟یا قبضہ والد کے رہا تھا؟

جواب وضاحت:دکان کرایہ پر دی ہوئی ہے والد صاحب کرایہ لیتے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں نانا کی میراث میں نواسے ،نواسی کا حصہ نہیں بنتا ۔

2۔آدھی دکان تو بڑے بیٹے کی ہوگی جنہوں نے اس میں آدھے پیسے ڈالے تھے ۔باقی آدھی دکان سب ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی تاہم دیگر ورثاء باپ کی خواہش کے مطابق اگر باقی آدھی دکان دوچھوٹے بیٹوں کو دیدیں تو یہ اچھی بات ہو گی۔اسی طرح جس بیٹے کو عمرہ کروانے کاکہا تھا اس کو بھی عمرہ کے پیسے دینا ضروری نہیں ہے ،تاہم اگر دیگر ورثاء باپ کی خواہش کے مطابق دیناچاہیں تو دے سکتے ہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved