• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زکوۃ میں بھیجی گئی رقم پرٹیکس زکوۃ میں شمار ہوگا؟

استفتاء

اگر کسی کو موبائل کے ذریعے زکوۃ کی رقم بھیجی جائےتو اس میں کچھ پیسے کٹوتی ہوجاتے ہیں جیسے دس ہزار روپیہ بھیجا جائے تو سو روپے کم ہوجاتے ہیں تو ایسی صورت میں کیا دس ہزار زکوۃ میں شمار ہوگا یا 9900ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں 9900روپے زکوۃ میں شمار ہوں گے[1]

[1] تفصیل

1۔مثال : زید نے عمرسے کہا کہ بکرسے زکوۃ وصول کرکے مجھے پہنچادو بذریعہ ایزی پیسہ اس نے وصول کرکے پہنچادی ، کٹوتی زید کےکھاتے میں ہوگی کیونکہ عمر نے جب زکوۃ وصول کی تو زکوۃ ہوگئی اورزید کی ملکیت ہوگئی اس واضح متفقہ مثال کےبعدزیر نظر صورت کو دیکھا جائے۔

2۔اگر زید خود بکر سے کہے کہ مجھے زکوۃ دو اوربذریعہ ایزی پیسہ مجھے پہنچا دو ۔اس صورت میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ زکوۃ ابھی تک ادا نہیں ہوئی اوربکر کی ملکیت پر باقی ہے لہذا جو بھی کٹوتی ہوگی وہ بکر (مزکی) سے ہوگی دوسرا احتمال یہ ہے کہ ہم یوں سمجھیں کہ جب زید نے پہنچانے کی بات کی تو حکمازید کے قبضے میں زکوۃ آگئی بطور وکالت ۔ وکیل یا تو خود مزکی ہے(اگرکسی فقہی اصول سے تصادم نہ ہو تو )یا ایزی پیسہ والی کمپنی وکیل بالاخذ والاارسال ہے ان کے قبضہ کرنے سے زکوۃ ملکیت زید میں داخل ہوگئی اور خرچہ ارسال بھی اسی کے کھاتے سے شمار ہوگا۔

3۔تیسری صورت یہ ہے کہ بکر از خود زید کے مطالبہ کے بغیر زید کو زکوۃ پہنچاتا ہے اس صورت میں کمپنی بکر/مزکی کی وکیل بالارسال ہے لہذا اس کا خرچہ بکرکے ذمہ ہوگا ۔

کیا یہ تفصیل معقول ہے یا ارسال کا خرچہ بہرصورت مزکی کے ذمہ ہی ہونا ضروری ہے۔؟ (ازشعیب صاحب )

تفصیل ثانی مفتی رفیق صاحب:

نمبر2ویسے ہی محل نظر ہے اور نمبر 3میں خرچہ مزکی کے ذمے ہے نمبر 1صورت میں اگرچہ کٹوتی کی رقم کو بھی زکوۃ میں شمار کریں گے لیکن وہ سوال میں ذکرکردہ صورت کے مفہوم متبادر کے خلاف ہے۔

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved