- فتوی نمبر: 20-147
- تاریخ: 26 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > قربانی کا بیان > وجوب قربانی کا بیان
استفتاء
قربانی کے وجوب کےدلائل اور قربانی کےنصاب کے دلائل قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمادیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
قربانی کےوجوب ونصاب کےدلائل مندرجہ ذیل ہیں ۔
عن أبى هريرةرضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: من كان له سعة ولم يضح
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےفرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کے پاس گنجائش ہو (یعنی قربانی کا نصاب ہو ) اور وہ (پھر بھی ) قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔
فائدہ:دوسو درہم یعنی 611گرام چاندی کی مالیت جس کےپاس ہو وہ شخص شریعت کی نظرمیں غنی ،مالدار اوروسعت والا ہے ۔ اگر اس کے پاس اتنی چاندی یا اس کی مالیت کے روپے ہوں تو اس پر زکوۃ بھی ہوتی ہے اور قربانی بھی ۔ اور اگر اس کے پاس چاندی یا روپے نہ ہو ں بلکہ اتنی مالیت کا سونا یا اپنی بنیا دی ضرورت سے فاضل اشیا ءہوں تو چونکہ وہ وسعت والاہے اس لئےاس پر قربانی اور صدقہ فطر واجب ہوں گے ۔(فہم حدیث2/389)
شرح معانی الآثار(2/393) میں ہے:
عن عبد الحميد بن جعفر قال حدثني أبي عن رجل من مزينة أنه أتى أمه فقالت يا بني لو ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فسألته قال فجئت إلى النبي صلى الله عليه و سلم وهو قائم يخطب الناس وهو يقول : من استغنى أغناه الله ومن استعف أعفه الله ومن سأل الناس وله عدل خمس أواق سأل إلحافا۔(معاني الآثار(2/393)
ترجمہ:عبد الحمید بن جعفر سے روایت ہے کہ مجھے میرے والد نے قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی کی طرف سےیہ بات بیان کی کہ وہ اپنی والدہ کے پاس آئے تو اس کی والدہ نے اس سے کہا اے میرے بیٹے ! اگر آپ رسول ﷺ کے پاس جاؤاور آپ ﷺسے کچھ مانگو(تو بہت اچھا ہوگا)انہوں نے کہا میں رسولﷺ کے پاس گیا اس حال میں کہ رسول ﷺ لوگوں کوخطبہ دے رہے تھے اور آپ فرمارہے تھے :جس نے غنا مانگی اللہ تعالی اس کو غنی کریں گے اور جس نے پاک دامنی مانگی اللہ تعالی اس کو پاک دامنی عطافرمائیں گےاور جس نے لوگوں سے مانگا حالانکہ اس کے پاس پانچ اوقیہ چاندی کے برابر (مال )تھا تو اس نے لوگوں سے چمٹ کرمانگا.
نوٹ: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے لہذا پانچ اوقیہ دوسو درہم ہوئے جو چاندی کا نصاب ہے ۔
اس حدیث میں آپ ﷺ نے دوسو درہم (ساڑھےباون تولہ چاندی ) کے مالک کو غنی قرار دیا ہے اس کی بنا پر حضرات فقہاء کرام ؒنے بھی قربانی کا نصاب دو سودرہم (یعنی ساڑھے باون تو لہ چاندی ) یا اس کی قیمت قرار دیاہے ۔
فتاوی عالمگیری(9/35) میں ہے:
وأما شرائط الوجوب منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة …. الموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم او عشرون دينارا او شيئ يبلغ ذلك سوي مسكنه و متاع مسكنه و مركوبه و خادمه في حاجته التي لا يستغني عنها
ترجمہ:اور بہر حال قربانی واجب ہونے کی شرائط تو مالداری قربانی کی شرائط میں سے ایک شرط ہے ، اور مالداری (سے مراد وہ چیز ہے ) جس کی وجہ سے صدقہ فطر واجب ہوتاہے نہ کہ زکوٰۃ ۔
اور ظاہر الروایہ میں مالدار وہ شخص ہے جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا کوئی ضرورت سے زائد ایسی چیز ہو جو ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونے کی مالیت کو پہنچ جائے۔
فتاوی قاضی خان میں ہے :
واما شرائطها فهي ثلاثة اولها الغني والغني من له مائتا درهم اوعرض يساوي مائتي درهم سوي مسكنه وخادمه وثيابه التي يلبسها واثاث البيت فالغني في الاضحية ما هوالغني في صدقة الفطر
ترجمہ: قربانی کے واجب ہونے کی تین شرطیں ہے :
پہلی شرط مالداری ہے اور قربانی میں مالدار وہ شمار ہوتاہے جس کے پاس دوسو درہم ( ساڑھےباون تولہ ) چاندی یااتنی مالیت کاسامان ہو جو ضرورت سے زائد ہو۔ ۔۔۔۔۔۔پس قربانی میں مالدار وہ ہے جوصدقہ فطر میں مالدار ہو۔
فتاوی بزازیہ(9/34) میں ہے:
قال الامام: من ملك مئاتي درهم او عرضا يساويه غير مسكنه وثيابه التي يلبسه والمتاع الذي يحتاج اليه الى ان يذ بح الاضحية يجب عليه
ترجمہ:امام (ابوحنیفہؒ) نے ارشاد فرمایاہے :کہ جودوسودرہم (ساڑھےباون تولہ چاندی )یا ضروت سےزائد ایسے سامان کا مالک ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تو لہ چاندی کے مساوی ہو اس پر قربانی واجب ہے ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved