- فتوی نمبر: 20-35
- تاریخ: 26 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > قربانی کا بیان > وجوب قربانی کا بیان
استفتاء
حضرت مفتی صاحب !حضرت مولانا الیاس گھمن صاحب نے اپنے ایک بیان میں( جس کی ویڈیو آپ کو ارسال کر دی گئی ہے) فرمایا ہے کہ زکوۃ میں نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی ہے تاکہ انفع للفقراء ہو اور قربانی میں نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہوگا تاکہ لوگوں پر حرج نہ ہو اس بارے میں وضاحت فرمائیں کہ قربانی کا صحیح نصاب کیا ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
حدیث میں ہے:
"عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ فَلاَ يَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا "(سنن دار قطنی باب الصید والذبائح)
ترجمہ : جس کے پاس قربانی کرنے کی وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔
اس حدیث کے پیش نظر امام شافعی ؒکے نزدیک قربانی کا نصاب صرف اتنا ہے کہ آدمی قربانی کا حصہ خریدسکے۔
الفقہ الاسلامی وادلتہ(2708/4) میں ہے :
والمستطيع عليها عند الشافعية :هو من يملك ثمنها زائدا عن حاجته وحاجةمن يعول يوم العيدوايام التشريق، لان ذالك وقتها، مثل زكاة الفطر۔
البتہ فقہائے حنفیہ ؒنے غنا (مالداری )کےلیے نصاب کی شرط رکھی ہے۔ نصاب غنا ( مال داری کانصاب) کیا ہے ؟ اس کو جاننے کے لئے یہ ذہن میں رکھیں کہ فقہائے حنفیہ ؒنے چارچیزوں کا نصاب ایک ہی بیان کیا ہے ۔
(1)قربانی (2)صدقہ فطر (3)جس کی وجہ سےآدمی مستحق زکوٰۃ نہیں رہتا(4)جس کی وجہ سے محتاج عزیز واقارب کانان نفقہ واجب ہوتاہے۔
چنانچہ فتاوی قاضی خان (1/415) میں ہے :
والغني الذي هو شرط لوجوب صدقة الفطر ان يملك نصابا اومالاقيمته قيمة نصاب فاضلاعن مسكنه وثيابه وفرسه وسلاحه ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وتعلق بهذالنصاب احكام وجوب صدقة الفطر والاضحية ووجوب نفقة الاقارب،
جس نصاب کی وجہ سے آدمی مستحق زکوٰۃ نہیں رہتا اس کو امام طحاوی ؒنے یوں بیان کیا ہے :
وخالفهم في ذلك آخرون فقالوا : من ملك مئتي درهم حرمت عليه الصدقة والمسألة ومن ملك دونها لم تحرم عليه المسألة ولم تحرم عليه الصدقة أيضا واحتجوا في ذلك بما روی :عبد الحميد بن جعفر قال حدثني أبي عن رجل من مزينة أنه أتى أمه فقالت يا بني لو ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فسألته قال فجئت إلى النبي صلى الله عليه و سلم وهو قائم يخطب الناس وهو يقول : من استغنى أغناه الله ومن استعف أعفه الله ومن سأل الناس وله عدل خمس أواق سأل إلحافا۔(معاني الآثار(2/393)
ترجمہ:اور دوسرے لوگوں نے اس کے خلاف قول کیا ہے وہ کہتے ہیں جو دو سو درہم کا مالک ہو اس کو صدقہ لینا اور سوال کرنا حرام ہے اور جو دو سو درہم سے کم کا مالک ہو اس کو سوال کرنا اور صدقہ لینا حرام نہیں اور انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے: عبد الحمید بن جعفر سے روایت ہے کہ مجھے میرے والد نے قبیلہ بنی مزینہ کے ایک آدمی کے بارے میں ایک حدیث بیان کی کہ: وہ اپنی والدہ کے پاس آیا تو والدہ نے کہا کہ اے میرے بیٹے ! اگر آپ رسول اللہ ﷺ کے پاس جائیں اور آپﷺ سے کچھ مانگیں (تو اچھا ہو)۔انہوں نے کہا میں رسول اللہﷺ کے پاس گیا اس حال میں کہ رسول ﷺ لوگوں کوخطبہ دے رہے تھے اور آپ فرما رہے تھے: جس نے غنا مانگی، اللہ تعالیٰ اس کو غنی کریں گے اور جس نے پاک دامنی مانگی اللہ تعالی اس کو پاک دامنی عطا فرمائیں گے اور جس نے لوگوں سے مانگا حالانکہ اس کے پاس پانچ اوقیہ کے برابر (مال )تھا تو اس نے لوگوں سے چمٹ کرمانگا۔
نوٹ: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے لہذا پانچ اوقیہ دوسو درہم (ساڑھے باون تولہ چاندی) ہوئے۔
چنانچہ امام طحاوی ؒمندرجہ بالا حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں :
فرأينا من ملك مئتي درهم كان بذلك غنيا لأن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال لمعاذ بن جبل رضي الله عنه في الزكاة خذها من أغنيائهم واجعلها في فقرائهم فعلمنا بذلك أن مالك المئتين غني وأن ما دونها غير غني فثبت بذلك أن الصدقة حرام على مالك المئتي درهم فصاعدا وأنها حلال لمن يملك ما هو دون ذلك وهو قول أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد رحمة الله عليهم أجمعين
پس جوشخص دوسودرہم(ساڑھے باون تولہ چاندی) کا مالک ہو تو وہ غنی شمار ہو گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ بن جبل ؓ کو زکوٰۃ لینے کے بارے میں فرمایا :ان کے مالداروں سے زکوٰۃ لے لو اور ان کے فقراء میں تقسیم کرو پس ہمیں اس سے معلوم ہوا کہ دوسو درہم (ساڑھے باون تولہ چاندی) کا مالک مالدار شمار ہوتا ہے۔اور جس کے پاس دوسو درہم(ساڑھے باون تولہ چاندی)سے کم مالیت ہے وہ مالدار نہیں ۔پس اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ جو دوسو درہم(ساڑھے باون تولہ چاندی)کا مالک ہو اس کے لیے صدقہ لینا حرام ہے اور جو اس سے کم مالیت کا مالک ہو اس کے لیے صدقہ لینا حلال ہے۔یہی امام ابوحنیفہ ،امام ابو یوسف،امام محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
ان عبارات سے معلوم ہو ا کہ قربانی کا نصاب اور جس مالیت کی وجہ سے آدمی مستحق زکوٰۃنہیں رہتا اس کا نصاب دوسو درہم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی ہے اور اس ضابطے کی فقہی عبارات سے بھی تائید ہوتی ہے ۔
چنانچہ فتاوی عالمگیری(9/35) میں ہے:
وأما شرائط الوجوب منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة …. الموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم او عشرون دينارا او شيئ يبلغ ذلك سوي مسكنه و متاع مسكنه و مركوبه و خادمه في حاجته التي لا يستغني عنها
ترجمہ:رہیں قربانی واجب ہونے کی شرائط تو ان میں سے ایک شرط مالداری ہے ، اور مالداری (سے مراد وہ چیز ہے ) جس کی وجہ سے صدقہ فطر واجب ہوتاہے نہ کہ زکوٰۃ ۔
اور ظاہر الروایہ میں مالدار وہ شخص ہے جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا کوئی ضرورت سے زائد ایسی چیز ہو جو ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونے کی مالیت کو پہنچ جائے۔
فتاوی قاضی خان میں ہے :
واما شرائطها فهي ثلاثة اولها الغني والغني من له مائة درهم اوعرض يساوي مائتي درهم سوي مسكنه وخادمه وثيابه التي يلبسها واثاث البيت فالغني في الاضحية ما هوالغني في صدقة الفطر
ترجمہ: قربانی کے واجب ہونے کی تین شرطیں ہیں
پہلی شرط مالداری ہے اور قربانی میں مالدار وہ شمار ہوتاہے جس کے پاس دوسو درہم ( ساڑھےباون تولہ چاندی ) یااتنی مالیت کاسامان ہو جو ضرورت سے زائد ہو۔ ۔۔۔۔۔۔پس قربانی میں مالدار وہ ہے جوصدقہ فطر میں مالدار ہو۔
فتاوی بزازیہ(9/34) میں ہے:
قال الامام: من ملك مئتي درهم او عرضا يساويه غير مسكنه وثيابه التي يلبسه والمتاع الذي يحتاج اليه الى ان يذ بح الاضحية يجب عليه
ترجمہ:امام (ابوحنیفہؒ) نے ارشاد فرمایاہے :کہ جودوسودرہم (ساڑھےباون تولہ چاندی) یا ضروت سےزائد ایسے سامان کا مالک ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تو لہ چاندی کے مساوی ہو اس پر قربانی واجب ہے ۔
خلاصۃالفتاوی (4/309) میں ہے:
قال العلامه طاهر عبدالرشيد البخاري :قال ابو حنيفه الموسرالذي له مائتادرهم او يساوي مائتي درهم سوي المسكن والخادم والثیاب التی یلبس ومتاع البیت الذی یحتاج اليه وهذا اذابقي له الي ان يذبح الااضحية۔
ترجمہ:علامہ طاہر عبدالرشید بخاری نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا مالداروہ ہے جس کے پاس دوسو درہم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر مالیت ہو جو اس کے گھر اور خادم اور پہننے کے کپڑے اور گھر کے ضروری سامان کے علاوہ ہو اور یہ قربانی کرنے تک باقی بھی ہو ۔
لہذا ہماری تحقیق یہ ہے کہ جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر بنیادی ضروریات زندگی سےزائدکوئی بھی چیزہو اس پر قربانی واجب ہے۔مولانا الیاس گھمن صاحب کی بات سے اتفاق کرنا مشکل ہے کیونکہ ایک تو مولانا کی جو بنیادی دلیل ہے وہ یہ ہے کہ فقہائے کرام نے مالک کو اختیار دیا ہے کہ وہ چاندی کی قیمت لگائے یا سونے کی ۔ حالانکہ یہ بات دراصل زکوٰۃ کے باب سے متعلق ہے ناکہ قربانی کے باب سے۔نیز مولاناکے ضابطے کے مطابق موجودہ دور میں قربانی اس پر واجب ہو گی جو تقریبا ساڑھے سات لاکھ روپے کی مالیت کا مالک ہو اس سے کم مالیت مثلا سات لاکھ روپے کی مالیت کے مالک پر قربانی واجب نہ ہو گی حالانکہ موجودہ دور میں سات لاکھ روپے کی مالیت کا مالک عرفا وشرعا اچھا خاصا مالدار شمار ہوتا ہے اور اس کے لیے 14،12 ہزار روپے کا حصہ خریدنا کچھ مشکل نہیں ۔
نوٹ:قربانی کے لئے بکراخریدنا ضروری نہیں ۔گائے میں حصہ بھی لے سکتے ہیں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved