- فتوی نمبر: 20-30
- تاریخ: 26 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > قربانی کا بیان > قربانی کے جانور کا بیان
استفتاء
"سلسلہ سوال و جواب نمبر-60″
سوال:قربانی کے لئے کونسے جانور ذبح کرنے کا حکم ہے؟ اور کیا بھینس کی قربانی درست ہے؟ اور جو لوگ بھینس کی قربانی کے قائل ہیں انکے دلائل کی کیا حقیقت ہے؟
جواب:افسوس کہ مسلمانوں نے قربانی جیسی عظیم اور سیدھی سادھی عبادت کو بھی اختلاف کی بھینٹ چڑھا دیا،لیکن ہم ان شاءاللہ ہمیشہ کی طرح مسلک کی پیروی کرنے کی بجائے اس مسئلہ کو قرآن و حدیث سے حل کرنے کی پوری کوشش کریں گے اور مجھے امید ہے اگر کوئی شخص فرقہ واریت سے نکل کر اس تحریر کا مطالعہ کرے گا تو وہ حق کو پا لے گا اور مزید کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ جب کوئی شخص اختلافات سے نکل کر سوچے گا تو وہ آسانی سے سمجھ جائے گا کہ جب قربانی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کے لیے کرتے ہیں تو یقیناً قربانی کا طریقہ اور جانور بھی وہ قربان کریں گے جنکی قربانی قرآن و سنت سے ثابت ہے،کسی مولوی کے پیچھے لگ کر ہم صاف واضح سنت عمل کے بارے اختلاف میں کیوں پڑیں؟
بھینس کی قربانی کے بارے علماء کا اختلاف ہے مگر صحیح اور مستند بات یہ ہے کہ بھینس کی قربانی درست نہیں،
دلائل درج ذیل ہیں:
قرآن کریم نے قربانی کےلیے ” بهيمة الانعام” کا انتخاب کیا ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔”
اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَكًا لِّيَذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمۡ مِّنۡۢ بَهِيۡمَةِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰهُكُمۡ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسۡلِمُوۡا ؕ وَبَشِّرِ الۡمُخۡبِتِيۡنَ
اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کی ہے، تاکہ وہ ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں
دیے ہیں۔ سو تمہارا معبود ایک معبود ہے تو اسی کے فرمانبردار ہوجاؤ اور عاجزی کرنے والوں کو خوش خبری سنادے۔
(سورہ الحج،آیت نمبر، 34)
اس آئیت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کے لیے "بهيمة الانعام”‘ کا لفظ استعمال کیا ہے،اور اس کے بعد دوسری جگہ سورہ الانعام میں اللہ پاک نے بھيمة الانعام کی وضاحت فرما دی کہ اس سے کون سے جانور مراد ہیں..!
ثَمٰنِيَةَ اَزۡوَاجٍ ۚ
مِنَ الضَّاۡنِ اثۡنَيۡنِ وَمِنَ الۡمَعۡزِ اثۡنَيۡنِ ؕ(143)
وَمِنَ الۡاِبِلِ اثۡنَيۡنِ وَمِنَ الۡبَقَرِ اثۡنَيۡنِ ؕ (144)
( بهيمة الانعام کی) آٹھ قسمیں،
بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو ۔
اور اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو،
(سورہ الانعام، آیت نمبر، 142__143_144)
مفسر علمائے کرام کی رائے
بہیمۃ الانعام سے مراد اونٹ ،گائے ،بھیڑ اور بکری ہے ۔اس کی وضاحت قرآن مجید
میں بھی ہے اور امام قرطبی نے بھی یہی ذکر کیا ہے
(تفسیر قرطبی ج۱۲ص۳۰)
امام شوکانی نے یہی چار جانور مراد لئے ہیں اور لکھا ہے کہ قربانی صرف انھیں چار جانوروں میں سے ہو گی
(فتح القدیر :ج۳ص۴۵۲،۴۵۱)
نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں :
الانعام کی قید اس لئے لگائی ہے کہ قربانی الانعام کے سوا اور کسی جانور کی درست نہیں اگرچہ اس کا کھانا درست ہی ہو
(ترجمان القرآن :۷۴۱)
خود قرآن کریم نے ”بهيمة الانعام ” کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا، کہ الانعام سے مراد ضان،( بھیڑ) معز،(بکری) ابل،(اونٹ) اور بقر،(گائے)چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا ہے، کہ انکے نر اور مادہ ملا کر ٹوٹل آٹھ جانور شامل ہیں بهيمة الانعام میں۔احادیث مبارکہ میں بھی بار بار انہی چار جانوروں کا ذکر ہے! چند ایک احادیث ملاحظہ کریں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں (بھیڑ کا نر، دنبہ) کی قربانی کی، آپ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، بسم اللہ پڑھی اور اللہ اکبر کہا اور ( ذبح کرتے وقت ) اپنا پاؤں ان کے پہلوؤں پر رکھا،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-1494)
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:
ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ قربانی کا دن آ گیا، چنانچہ ہم نے گائے کی قربانی میں سات آدمیوں اور اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کو شریک کیا،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-1501)
عطاء بن یسار کہتے ہیں،
میں نے ابو ایوب انصاری رضی الله عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-1505)
کلیب کہتے ہیں،
ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بنی سلیم کے مجاشع نامی ایک شخص کے ساتھ تھے، بکریوں کی قلت ہو گئی، تو انہوں نے ایک منادی کو حکم دیا، جس نے پکار کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ( قربانی کے لیے ) بھیڑ کا ایک سالہ بچہ دانتی بکری کی جگہ پر کافی ہے،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-3140)
انہی چار جانوروں کی قربانی وہ نر ہو یا مادہ پوری امت مسلمہ کے نزدیک اجماعی و اتفاقی طور پر مشروع ہے۔اور تمام احادیث کی کتب میں بھی انہیں چار جانوروں کا ذکر ہوا ہے،جبکہ بھینس کی قربانی نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ عمل صحابہ سے کیونکہ حجاز میں اسکا وجود ہی نہیں تھا
بھینس کی قربانی کو جائز سمجھنے والوں کے دلائل اور انکا رد
پہلی دلیل:
یہ بات ٹھیک ہے کہ علماء عرب سمیت اہل لغت کے بہت سارے علماء بھینس کی قربانی کو جائز بھی کہتے ہیں،
اور انکی دلیل صرف یہ ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے تو اسکی قربانی بھی جائز ہے،
(مجموع فتاوی ورسائل فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین : 34/25)
جواب:محترم علماء کا فتویٰ اپنی جگہ،
پر حقیقت یہ ہے کہ گائے اور بھینس میں زمین آسمان کا فرق ہے،دونوں کی جسامت، شکل و صورت، جلد، دونوں کی خوراک، پانی میں نہانے یا نا نہانے ، عادات و حرکات ، افزائش نسل ،گوشت،کھال اور دودھ تک ہر چیز میں فرق ہے، حالیہ ماہرین نے بھی بھینس کی الگ دو قسمیں ذکر کی ہیں،
دیکھیں ویکیپیڈیا پر..!!
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/بھینس جبکہ گائے ایک الگ جانور ہے بذات خود اس کی الگ سے بہت ساری نسلیں ہیں،تفصیل کے لیے لنک ملاحظہ فرمائیں
!!https://ur.m.wikipedia.org/wiki/گائے،اس کے باوجود بھی بھینس کو گائے کی نسل بنانا سمجھ سے باہر ہے۔
دوسری دلیل:
بھینس کی قربانی کی دوسری دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ بھینس کی زکوٰۃ گائے پر قیاس کر کے دیتے ہیں:
بھینس کی زکوٰۃ کے نصاب کے بارے امام ابن المنذر فرماتے ہیں:
’’ واجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر‘‘ اور اس بات پر اجماع ہےکہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے۔
(الاجماع کتاب الزکاۃ ص۴۳حوالہ:۹۱)
اس بنا پر کچھ علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ جب بھینس کی زکوٰۃ ہم گائے پر قیاس کر کے اسکے اعتبار سے دیتے ہیں تو بھینس کی قربانی گائے پر قیاس کر کے کیوں نہیں کر سکتے؟؟
دلیل کا جواب..!!
سب سے پہلی بات کہ امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے زکوٰۃ کے باب میں یہ بات فرمائی ہے کہ زکوٰۃ کے بارے جو حکم گایوں کا ہے وہی بھینسوں کا، جبکہ قربانی کے باب میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی،
اور دوسری بات میں دین کا ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے ایک چھوٹی سی گزارش کرتا ہوں کہ قیاس کا سیدھا سادہ اصول یہ ہے جب اصل چیز موجود نہ ہو پھر قیاس سے کام چلایا جاتا ہے،مطلب جیسے اللہ پاک نے جانوروں کی زکوٰۃ فرض کی ہے، اور اس فرض کو پورا کرنے کے لیے اب ہم نے بھینس کی زکوٰۃ نکالنی ہے، لیکن جب ہمیں حدیث میں بھینس کی زکوٰۃ نکالنے کا نصاب نہیں ملتا تو ہم مجبور ہیں کہ بھینس کو گائے پہ قیاس کر کے اسکے مطابق زکوٰۃ نکالیں، اور کوئی رستہ نہیں ہمارے پاس، تا کہ زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی وجہ سے ہم گناہ میں ملوث نہ ہو جائیں۔ٹھیک اسی طرح جو قربانی کے لئے بھیڑ،بکری، گائے، اونٹ اصل جانور ہیں، اگر یہ جانور نہ ملیں تو پھر ہم مجبور ہیں کہ اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے ہم بھینس کو گائے پر قیاس کر کے اسکی قربانی کریں، اور یقیناً اس وقت یہ جائز بھی ہو گا،لیکن جب قربانی کے لئے اصل جانور بھیڑ،بکری،گائے،اونٹ عام دستیاب ہیں تو پھر ہم آسانی یا چند پیسے بچانے کی خاطر قیاس کیوں کریں؟؟
اگر فرض کریں بھینس کی زکوٰۃ کا نصاب شریعت میں موجود ہوتا تو کیا اس بھینس کو گائے پر قیاس کیا جاتا؟
یقیناً نہیں کیا جاتا، تو یہ بات سمجھ آئی قیاس اس وقت ہوتا ہے جب اصل موجود نا …
مفتی صاحب اس مسلے کی وضاحت کر دیجے صیح ھے یا غلط بہت بہت جزاكَ اللہ
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ہماری تحقیق میں مذکورہ مسئلہ درست نہیں درست مسئلہ یہ ہے کہ بھینس گائے کی ایک نوع(قسم)ہے لہذا جب گائے کی قربانی درست ہے تو اس کی ایک نوع( قسم) بھینس کی قربانی بھی درست ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر 10848:
عن الحسن انه كان يقول الجواميس بمنزله البقر
فتح القدیر 9/517 میں ہے:
و يدخل في البقر الجاموس لانه من جنسه
© Copyright 2024, All Rights Reserved