• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

خلوت صحیحہ میں بغیر وطی کے طلاق کا حکم

استفتاء

گزارش یہ ہے کہ میرا نام **** ہے میری جب شادی ہوئی توشادی کی پہلی رات میری بیوی سے منہ ماری ہو گئی کہ میری بیوی نے مجھے کہا کہ میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں ،میرے ماں باپ نے میری شادی آپ سے زبردستی کی تھی ، میں آپ سےشادی نہیں کرناچاہتی تھی تو ہم دونوں نے ہمبستری نہیں کی تھی میں نے غصے میں آکر اس کو کہہ دیا کہ میں آپ کو طلاق دے رہا ہوں یہ لفظ میں نے تین مرتبہ کہہ دئیے اس کےبعد میری بیوی اپنے ماں باپ کے پاس رہنے لگی ۔چھ سے سات مہینے کے بعد ہماری آپس میں بڑوں نے صلح کروادی اس کےبعد اب ہمارے 3بچے ہیں آپ بتائیے کہ ہماری طلاق ہوچکی ہے یا نہیں ؟اگر ہو گئی ہے تو اب اس کا کیا حل ہونا چاہیے ؟اور اگر نہیں ہوئی توپھر بھی آپ ہمیں بتادیں شکریہ

وضاحت مطلوب ہے:غصے کی تفصیل بیان کریں

جواب وضاحت:ہم دونوں میاں بیوی کمرے میں تھے ہمیں میاں بیوی کے تعلقات قائم کرنے سے کوئی چیز بھی مانع نہیں تھی ہمارا جھگڑا ہورہا تھا اورمیری بیوی نے مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا تو میں نے تین بار مذکورہ الفاظ کہہ دیئے مذکورہ الفاظ کہتے وقت نارمل غصہ تھا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو چکی کا نکاح ختم ہوچکا ہے لہذا نہ اب صلح ہوسکتی ہے اورنہ رجوع کی گنجائش ہے۔

توجیہ :جب شوہر نے پہلی دفعہ طلاق کا جملہ بولا کہ میں آپ کو طلاق دے رہا ہوں تو اس جملے سےایک طلاق واقع ہو ئی اورچونکہ طلاق دینے سے پہلے خلوت صحیحہ ہوچکی تھی اور خلوت صحیحہ حکم میں وطی کےہے یعنی اس کےبعد اگر شوہر طلاق دے دے تو عورت پر عدت بھی واجب ہوتی ہے اوراس عدت میں دی گئی مزید طلاقیں بھی واقع ہوجاتی ہیں مذکورہ صورت میں دوسری اورتیسری طلاق چونکہ خلوت صحیحہ کی عدت میں دی گئی ہےلہذا دونوں طلاقیں واقع ہوگئیں ،اورپہلی ایک سے مل کرکل تین طلاقیں ہوگئیں۔

شامی(4/248)میں ہے:

والحاصل أنه إذا خلا بها خلوة صحيحة ثم طلقها طلقة واحدة فلا شبهة في وقوعها فإذا طلقها في العدة طلقة أخرى فمقتضى كونها مطلقة قبل الدخول أن لا تقع عليها الثانية لكن لما اختلفت الأحكام في الخلوة أنها تارة تكون كالوطء وتارة لا تكون جعلناها كالوطء في هذا فقلنا بوقوع الثانية احتياطا لوجودها في العدة

فتاوی عثمانی(2/338)میں ہے:

سوال :آج میں آپ کی لڑکی کو طلاق دے رہا ہوں میرے اس کو طلاق دینے کے وجوہات یہ ہیں اس نے میری بے عزتی دو لڑکے ذات گوجر سالا اوربہنوئی کے پاس سے کرائی اس بے عزتی کیو جہ صرف اس کی بدمعاشی تھی کیونکہ اس نے ان کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھے تھے میں نے اس کو اس بات سے منع کیا مگر اس نے میری  پروا ہ تک نہیں کی ،آپ کی لڑکی کے کئی قسم کے فوٹو بھی اس لڑکے کے پاس ہیں جو کہ اس نے مجھے دکھائے بھی تھے مگر میں بات برداشت نہ کرسکا اس لیے میں نے اس کو طلاق طلاق کا مصمم ارادہ کرلیا ہے کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوگئی ؟

جواب :مندرجہ بالاتحریر سے لکھنے والے کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوئی جس کا حکم یہ ہے کہ شوہر عدت کے دوران رجوع کرسکتا ہے اورعدت کے بعد باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے مذکورہ تحریر میں اگر چہ لفظ طلاق تین مرتبہ استعمال ہوا ہے لیکن آخری دو الفاظ طلاق دینے کےلیے نہیں طلاق کی وجہ بیان کرنے کےلیے ہیں اس سے الگ طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved