• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

لائف انشورنس کا حکم

استفتاء

مفتی صاحب لائف انشورنس کے بارے میں دلائل سے فتوی جس پر مہر وغیرہ ہو وہ دے دیں کسی کو دینا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مروجہ انشورنس کی تمام شکلیں حرام اور نا جائز ہیں کیونکہ ممبر کی طرف سے انشورنس کمپنی کو جو رقم جمع کروائی جاتی ہے وہ شرعی نقطہ نظر سےقرض ہے اور انشورنس کمپنی کا اپنے ممبر کو چندسال بعد یا کسی حادثے کے وقت اصل رقم پر اضافہ کرکے دینا قرض پر نفع دینا ہے جو کہ واضح طور پر سود ہے،نیزانشورنس کے اندر سودکے ساتھ جوابھی پایا جاتا ہےاورجو ااس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں  میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہوتو  جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی اور اگر حادثہ جلدی ہو جائےتو جمع شدہ رقم سے بھی زیادہ مل جاتی ہے جو کہ جوئےکی حقیقت ہے،اور سود اور جوا دونوں کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔

چنانچہ قرآن کریم میں ہے(سورہ مائدہ 90):

يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون۔

مصنف ابن ابی شیبہ (483/4)میں ہے:

عن ابن سیرین قال کل شيء فیه قمار فهو من المیسر

صحیح مسلم  (1216/3)میں ہے:

عن جابر قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال هم سواء

فتاوی شامی (413/7) میں ہے:

كل قرض جر نفعا حرام۔۔۔لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا فتكون ربا وهذا أمر عظيم ۔

فتاوي شامی(403/6) میں ہے :

لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved