• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

(1)کمپنی کاہزار روپے پر 125روپے کا بیلنس دینا یا 100روپے کالوڈ کروانےوالے کو95روپے کالوڈ کرکے دینا (2)ایزی پیسہ میں رقم جمع کروانے یا نکلوانے پر گاہک سے پیسے لینا

استفتاء

حضرت صاحب گزارش یہ ہے کہ میرا نام محمد آصف ہے اور میں ضلع قصور کے ایک گاؤں میں رہتا ہوں اور  میری ایزی لوڈ کی دوکان ہے ۔اور مجھے اس کام میں کچھ شبہات ہیں برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیں۔

1۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم کمپنی کو ایک ہزار روپے دیتے ہیں تو کمپنی ہمارے اکاونٹ میں ایک ہزار پچیس روپے دیتی ہے اس کے بعد جب ہم لوڈ کرتے ہیں تو100 روپے کے لوڈ پر  پانچ روپے کٹوتی  کرتے ہیں مثلا 100روپے کے 95روپے لوڈ کرتے ہیں۔

2۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ  لوگوں نے ایزی پیسہ وغیرہ کے ذریعے پیسے بھیجنے یا لینے ہوتے ہیں تو یہ کام بھی ہم کرتے ہیں اور چاہے لینے ہوں یا بھیجنے ہوں 10 ،20 روپے ہم ان سے بھی لیتے ہیں جبکہ ہمیں اس کام کاکمپنی سے بھی کمیشن ملتا ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں  آپ کو کمپنی جب ایک ہزار پر ایک ہزار پچیس روپے کا لوڈ دیتی ہے تو اس لوڈ کو اگرچہ عام بول چال میں بیلنس کہا جاتا ہے جس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ روپوں کی کمی بیشی میں خریدوفروخت ہو رہی ہے جو کہ سود ہے لیکن در حقیقت کمپنی آپ کو ایک ہزار روپےلے کر ایک ہزار پچیس روپے نہیں دے رہی ہوتی بلکہ ایک ہزار میں ایک ہزار پچیس روپے کے بقدر منٹس ،میسیجزوغیرہ کی صورت میں خدمات (سروسز)دے رہی ہوتی ہے جو کہ روپے کی روپے کے بدلے خرید وفروخت نہیں  لہذا یہ  صورت بلا شبہ جائز ہے ،یہی صورت تب ہوتی ہے جب آپ 100 روپے لے کر 95 روپے کا لوڈ دے رہے ہوتے ہیں یہاں بھی آپ 100 روپے میں 95 روپے کی خدمات(سروسز) دیتے ہیں نہ کہ 100 روپے کے 95 روپے۔ لہذا یہ صورت بھی بلا شبہ جائز ہے۔

2۔مذکورہ صورت میں دکاندار چونکہ کمپنی کا ایجنٹ بن کر کام کر رہا ہوتا ہے  جس کا اسے کمپنی کی طرف سے کمیشن بھی ملتا ہے اس لیے گاہک سے مزید پیسے لینا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved