• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا لوگوں میں تفرقہ پھیلانے والا امامت کے لائق ہے؟

استفتاء

سوال:مرکزی جامع مسجد مدنی کوٹ بیربل خانیوال کے مولانا صاحب ایک سال قبل بطور خطیب مقرر ہوئے جوکہ اپنے فرائض میں غفلت کے مرتکب ہیں  مولانا صاحب کی وجہ سے مسجد میں نمازیوں میں انتہائی کمی واقع ہو گئی ہے مولانا صاحب ہر جمعۃالمبارک میں حدیث مبارک بیان کرنے کی بجائے اشتعال انگیز اور نفرت انگیز تقریر کرتے ہیں۔مسجد کے نمازیوں میں اور اہل علاقہ میں بہت زیادہ گروپ بندی پیدا کر دی ہے، ہر روز لڑائی جھگڑے کی ترغیب دے رہے ہیں اور مسجد کی انتظامیہ کے خلاف بھی زہر انگیز تقاریر کر رہے ہیں  اور ممبر رسول کے اوپر کھڑے ہو کر دھمکیاں لگاتے رہتے ہیں کہ میرے بڑے بڑے لوگ سیکٹریٹ لاہور میں ہیں جن سے میرے تعلقات ہیں اور تنخواہ بھی اپنی مرضی کے مطابق وصول کر رہے ہیں  جس کی وجہ سے مسجد کے نمازیوں میں شدید غم و غصہ پیدا ہو گیا ہے اور مولانا صاحب کی وجہ سے ہر وقت لڑائی جھگڑے کا ماحول بن گیا ہے، کسی بھی وقت ناخوشگوار واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔استدعا ہے کہ کیا ایسے حالات میں مولانا صاحب کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟

وضاحت:مسجد کی انتظامیہ اور امام کا اپنا اپنا مؤقف ان کے دستخط اور فون نمبروں کے ساتھ مہیا کیا جائے پھر جواب دیا جائے گا۔

جواب وضاحت: امام صاحب تمام دوسرے ممبر انتظامیہ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں وہ کیسے اپنا نمبر اور موقف دیں گے ہاں اگر صرف نمبر چاہیے تو میں لے کر بھیج دیتا ہوں۔

نوٹ:از دارالافتاء  سائل سے کہا گیا کہ نمبر ارسال کردیں لیکن تاحال نمبرموصول نہیں ہوا، لہٰذااگر حقیقت میں معاملہ اس طرح نہ ہوا جس طرح سوال میں مذکور ہے تو ہمارا جواب کالعدم ہوگا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر مذکورہ حالات واقعتاًدرست ہیں تو ایسے شخص کی امامت درست نہیں۔

مرقاة المفاتيح (2/560،561)میں ہے:

(وعن جابر قال: كان معاذ بن جبل يصلي مع النبي) ، أي: في مسجده (صلى الله عليه وسلم) ، أي: العشاء الأخيرة، ثم يرجع إلى قومه يصلي بهم تلك الصلاة، ولفظ البخاري: فيصلي بهم الصلاة المكتوبة، كذا في الشمني شرح النقاية، (ثم يأتي) ، أي: مسجد الحي (فيؤم قومه) ، …….(فصلى) ، أي: معاذ (ليلة مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم أتى قومه فأمهم، فافتتح بسورة البقرة) ، أي: بعد الفاتحة أو بسورة البقرة وفاتحتها (فانحرف رجل) ، أي: مال عن الصف فخرج منه، أو انحرف من صلاته عن القبلة والرجل حزام بن أبي كعب الأنصاري، أو أراد الانحراف (فسلم)  …… (ثم صلى وحده) ، أي: استأنف الصلاة منفردا؛ …… (وانحرف) ، أي: خرج من المسجد (فقالوا) : أي قومه له: (أنافقت يا فلان؟) ، أي: أفعلت ما فعله المنافق من الميل والانحراف عن الجماعة والتخفيف في الصلاة قالوه تشديدا له قاله الطيبي (قال: لا والله، ولآتين) : .. أي: والله لا أنافق ولآتين (رسول الله صلى الله عليه وسلم) ……..(فلأخبرنه، فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إنا أصحاب نواضح) : جمع ناضحة أنثى ناضح، وهي الإبل التي يستقى عليها للشجر والزرع (نعمل بالنهار) ، أي: نكد فيه بعمل الزراعة لأجل أمر المعايش الذي يتوسل به إلى أمر المعاد، وأما قول ابن حجر: وذلك عمل مشق جدا ولو بعض النهار، فكيف ونحن نعمل ذلك بالنهار جميعه، فغير مقبول لعدم دلالة في الحديث عليه (وإن معاذا صلى معك العشاء، ثم أتى) ، أي: قومه كما في نسخة صحيحة (فافتتح بسورة البقرة) : يحتمل أنه أراد معاذ أن يقرأ بعضها ويركع، فتوهم المقتدي أنه أراد إتمامها فقطع صلاته، فعاتب رسول الله صلى الله عليه وسلم على إيهامه ذلك، فإنه سبب للتنفير، ونظير ذلك وقع لخواجه كله كوى، وهو من مشايخ خراسان وكان مترافقا مع مولانا جامي في سفر الحج، وكان من عادته إطالة القراءة خصوصا في صلاة الصبح، فيوما من الأيام وهما في برية فيها برد شديد دخلا في صلاة الفجر، فابتدأ بسورة الفتح فاضطرب المقتدي اضطرابا قويا، فلما قرأ ثلاث آيات ركع وعدهذا من ملاطفاته ومطايباته، وفي المصابيح: أن معاذا صلى بنا البارحة، أي: الليلة الماضية فقرأ البقرة، فتجوزت أي من صلاتي يعني اختصرتها وخففتها، وقيل: ترخصت بترك المتابعة، وقيل: من الجوز بمعنى القطع، وهذا يدل على أن المأموم إذا عرض له أمر له أن يخرج من إمامة الإمام ويتمها لنفسه بالاستئناف، فزعم: على بناء المفعول، أي: زعم الناس أني منافق، (فأقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على معاذ) ……(فقال: ” يا معاذ) : خطاب عتاب (أفتان) ، أي: أمنفر (أنت؟) : وموقع للناس في الفتنة، قال الطيبي: استفهام على سبيل التوبيخ، وتنبيه على كراهة صنعه لأدائه إلى مفارقة الرجل الجماعة فافتتن به، في شرح السنة، الفتنة: صرف الناس عن الدين وحملهم على الضلالة، قال تعالى: {ما أنتم عليه بفاتنين} [الصافات: 162] ، أي: بمضلين (اقرأ: {والشمس وضحاها} [الشمس: 1] ، أي: في الركعة الأولى {والضحى} [الضحى: 1] ، أي: في الركعة الثانية، كما دل عليه فعله عليه السلام {والليل إذا يغشى} [الليل: 1] : و {سبح اسم ربك الأعلى} [الأعلى: 1] : الواو فيه لمطلق الجمع فلا إشكال أو بمعنى اقرأ هذه السورة وأمثالها من أوساط أوساط المفصل، وفيه دلالة على سنية تخفيف الإمام للصلاة وأن يقتدي بأضعفهم……والله أعلم، (متفق عليه)

فتاوی محمودیہ(6/187،189)میں ہے:

سوال: ایک شخص جو کہ مندرجہ ذیل اخلاق اور عادات کا حامل ہے،امامت کا اہل ہو سکتا ہے یا نہیں،ایسے شخص کے پیچھے نماز جائز ہو سکتی ہے یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔مسلمانوں میں تفرقہ بازی کرانا چاہتا ہے،نماز کے اوقات کا پابند نہیں۔۔۔۔؟

جواب:مسلمانوں میں بلا وجہ تفریق ڈالنا بہت بڑا گناہ ہے،نمازی کا اپنے وقت پر پابند رہنا از خود ہر ایک کے لیے ضروری ہے،کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہو جاے تو کوی مضائقہ نہیں۔۔۔۔۔کسی ذی اثر عالم کے ذریعہ سمجھا دیئے جائیں اگر وہ مان جائیں اور ناجائز امور سے توبہ کر کے اپنی حالت شریعت کے مطابق کر لیں تو بہتر ہے،ورنہ اگر ان سے بہتر امامت کے لائق متبع سنت  آدمی موجود ہو تو اسکو امام بنا لیا جائےاور موجودہ امام کو الگ کردیا جاےبشرطیکہ اس کے علیحدہ کرنے میں فتنہ پیدا نہ ہو اور مسجد کے ویران ہونے کا خوف نہ ہو۔فقط واللہ سبحانہ تعالی اعلم۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved