• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کل پیداوار سے نصف عشر یا عشر ادا کیا جائےگا؟

استفتاء

عشر کی ادائیگی میں پیداوار پر آنے والے اور منڈی تک لے جانے کے اخراجات منہا کرنے کی تفصیل

سوال: ہمارے پاس کینو کا باغ ہے، ہم کینو فروخت کرتے ہیں، کینو فروخت کرنے سے پہلے اس کو فیکٹری کے اندر لے  جاکر دھلایا جاتا ہے، اس کے بعد اس کی پیکنگ ہوتی ہے،  پھر بعد میں منڈی کے اندر بھیج دیا جاتا ہے، کینو  فروخت ہونے کے بعد فیکٹری کا خرچہ جو پیکنگ کے اوپر  اور اس کو توڑنے کے اوپرآیا تھا اور اس کے ساتھ ٹرانسپورٹ کا خرچ اور کمیشن جو بیچنے والا لیتا ہے بل  میں سے نکل جاتا ہے، یہ سارے خرچ نکال کر باقی رقم ہمیں مل جاتی ہے۔برائے مہربانی پوچھنا یہ تھا کہ جو عشر ہم ادا کریں گے وہ باقی رقم پر ادا کریں گے جو یہ  خرچ نکال کر ہمیں موصول ہوئی ہے ؟

جواب:ہر وہ زمین  جس کو ایسے پانی سے سیراب کیا جائے  جس میں خرچہ آتا ہو  (مثلاً ٹیوب ویل وغیرہ کے ذریعے) اس میں  نصفِ عشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ (%5) دینا واجب ہے، اور اگر خرچہ نہ آتا ہو تو اس میں عشر (دسواں حصہ یعنی ٪10) دینا ضروری ہے۔

باقی پیداوار  پر جو دیگر اخراجات آتے ہیں  ان میں یہ تفصیل ہے :

وہ اخراجات جو زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لےکر پیداوار حاصل ہونے اور اس کو سنبھالنے تک ہوتے ہیں  یعنی وہ اخراجات جو زراعت کے امور میں سے ہوتے ہیں  مثلاً زمین کو ہم وار کرنے، ٹریکٹر چلانے، مزدور کی اجرت وغیرہ  یہ اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا نہیں کیے جائیں گے، بلکہ عشر  یا نصفِ عشر  اخراجات نکالنے سے پہلے  پوری پیداوار سے ادا کیا جائے گا    البتہ  پیداوار کی کٹائی  کے بعد وہ اخراجات جو زراعت (کھیتی باڑی) کے امور میں سے نہیں  ہوتے ، جیسے پیداوار کو منڈی تک پہنچانے  کا کرایہ، اسی طرح پیکنگ، لوڈنگ وغیرہ کے جو اخراجات  آئیں تو ایسے اخراجات  عشر ادا کرنے سے پہلے منہا کیے جاسکتے ہیں ۔

نیز یہ ملحوظ رہے  کہ جب پیداوار  تیار ہوکر کاٹنے کے قابل ہوجائے تو عشر کا اصل تعلق اسی پیداوار سے ہوتا ہے،  اور اگر قیمت کے حساب سے عشر ادا کرنا ہو تو  اس مالیت کا اعتبار ہوتا ہے جو پیداوار  پک جانے کے بعد  کٹائی کے وقت اس کی قیمت ہو، اور مالک کو یہ اختیار  ہے  چاہے تو  اسی پیداوار میں سے عشر دے دے اور چاہے تو اس کی قیمت دے دے، اور اگر مالک اس  پیداوار کو یہاں سے دور کسی  منڈی  میں لے جانا چاہے؛ تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کیا جاسکے، جس میں فقراء کا بھی فائدہ ہو ، اور اس نے ابھی تک عشر ادا نہیں کیا تو اس صورت میں پیداوار کے کٹنے کے بعد  منڈی  تک پہچانے پر جو جملہ  اخراجات  آئیں وہ عشر ادا کرنے سے پہلے منہا کیے جاسکتے ہیں، جیسا کہ ماقبل سطور میں بھی گزرا۔

(2/ 326، باب العشر، ط؛ سعید)

وفيه ایضاً:”(و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة، وفي كتب الشافعية: أو سقاه بماء اشتراه، وقواعدنا لاتأباه، ولو سقى سيحاً وبآلة اعتبر الغالب، ولو استويا فنصفه، وقيل: ثلاثة أرباعه (بلا رفع مؤن) أي كلف (الزرع) وبلا إخراج البذر (قوله: بلا رفع مؤن) أي يجب العشر في الأول ونصفه في الثاني بلا رفع أجرة العمال ونفقة البقر وكري الأنهار وأجرة الحافظ ونحو ذلك، درر، قال في الفتح: يعني لايقال بعدم وجوب العشر في قدر الخارج الذي بمقابلة المؤنة، بل يجب العشر في الكل؛ لأنه عليه الصلاة والسلام حكم بتفاوت الواجب لتفاوت المؤنة، ولو رفعت المؤنة كان الواجب واحداً وهو العشر دائماً في الباقي؛ لأنه لم ينزل إلى نصفه إلا للمؤنة والباقي بعد رفع المؤنة لا مؤنة فيه فكان الواجب دائماً العشر لكن الواجب قد تفاوت شرعاً فعلمنا أنه لم يعتبر شرعاً عدم عشر بعض الخارج وهو القدر المساوي للمؤنة أصلاً اهـ وتمامه فيه ".

(2 / 328، باب العشر، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما صفة الواجب فالواجب جزء من الخارج؛ لأنه عشر الخارج، أو نصف عشره وذلك جزؤه إلا أنه واجب من حيث إنه مال لا من حيث إنه جزء عندنا حتى يجوز أداء قيمته عندنا”.

(2 / 63، فصل فی صفۃ الواجب ، با ب زکاۃ الزرع والثمار ، ط: سعید)

مجمع الانہر میں ہے:

"(قبل رفع مؤن الزرع) بضم الميم وفتح الهمزة جمع المؤنة وهي الثقل والمعنى بلا إخراج ما صرف له من نفقة العمال والبقر وكري الأنهار وغيرها مما يحتاج إليه في الزرع…” الخ

(1 / 216، باب زکاۃ الخارج، ط: دار احیاء التراث العربی)

الفتاوی تاتار خانیہ میں ہے:

"إذا كانت الأرض عشريةً فأخرجت طعاماً وفي حملها إلى الموضع الذي يعشر فيه مؤنة فإنه يحمله إليه ويكون المؤنة منه”.

(3ْ/292 ،  الفصل السادس  فی التصرفات فیما یخرج من الارض، کتاب العشر، ط:  زکریا)

مفتیان کرام اس بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟

وضاحت:کینو کا باغ آپ کا اپنا ہےیا کسی  سے خریدا ہے؟

جواب وضاحت:میرااپنا باغ ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مذکورہ خرچےمنہا نہیں کیئےجائیں گےبلکہ کل رقم پر عشر نکالاجائےگا۔

نوٹ:بنوری ٹاؤن کے فتوے سے ہمیں اتفاق نہیں جس کی وجہ یہ ہےکہ بنوری ٹاؤن کے فتوے میں فتاویٰ تاتارخانیہ کی جس عبارت کی وجہ سے مذکورہ خرچے منہا کرنے کا کہا گیا ہے اس عبارت میں وہ خرچہ مراد ہے جو عشر کی فصل کوعشر کے سرکاری گودام وغیرہ تک پہنچانے میں آئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved