• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والدہ اپنا مکان کسی ایک اولاد کو ہبہ کرسکتی ہے؟

استفتاء

ادب سے گزارش ہے کہ مجھے اس مسئلہ کا بہترین حل بتائیں۔ ہم چھ بہن، بھائی ہیں ۔چار بھائی ہیں دو بہنیں ہیں۔ہم چھ بہن ،بھائی ایک ہی ماں، باپ کی اولاد ہیں۔ہمارے والد محترم وفات پا چکے ہیں اور ہماری والدہ حیات ہے اور ہماری والدہ کے نام پانچ مرلے کا مکان ہے۔ ہماری والدہ نے دوسری شادی کرلی ہے ہماری والدہ کی 5 مرلے جائیداد میں ہمارے سوتیلے والد کا بحیثیت شوہر ہونے کے کوئی حصہ ہے یا نہیں؟ زندہ ہے تو کیا حکم ہے؟ یا اگر وفات پا گئے ہیں تو کیا حکم ہے؟ آیا کہ ایک والدہ اپنی پانچ مرلے جائیداد اور سازوسامان اپنے چھ بچوں میں سے کسی ایک بیٹے/ بیٹی کے نام کر سکتی ہے یا نہیں؟ ہمارے سوتیلے والد کی سوا دو مرلے جائیداد میں ہماری والدہ کا کیا حصہ ہے؟ اسلام کے مطابق اس کا کیا طریقہ یا حل ہے؟ مہربانی فرما کر رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت: والدہ کو اپنے والدین کے مرنے کے بعد وراثت کے طور پر پیسے ملے تھے ان پیسوں سے جائیداد خریدی تھی اور اس پر زیور جو حق مہر کا تھا وہ بیچ کر کنسٹرکشن کی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب تک آپ کی والدہ زندہ ہیں یہ مکان ان کا ہے اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں۔وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کر سکتی ہے اگر چاہے تو اپنی اولاد کو ہبہ بھی کر سکتی ہے۔ البتہ کسی ایک کو ہبہ کرنا اور دیگر کو محروم کرنا شرعا ظلم ہے۔ اسی طرح آپ کے سوتیلے والد کی جائیداد بھی ان کی ملکیت ہے ان کے ہوتے ہوئے اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں لیکن اگر وہ فوت ہو جاتے ہیں اور آپ کی والدہ زندہ ہوں اور ان کی نکاح میں بھی ہو تو ان (آپ کی والدہ)کا بھی اس میں حصہ ہوگا۔

شامی (10/525) میں ہے:

كتاب الفرائض…وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقة، او حكما كمفقود او تقديرا كجنين فيه غرة.

ہندیہ(7/355) میں ہے:

رجل وهب في صحته كل المال للولد جاز في القضاء و يكون اثما في صنع ،كذا في فتاوى قاضي خان.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved