• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تمام ترکہ کی وصیت

استفتاء

میری والدہ محترمہ جو کہ 2011 میں وفات پا گئی تھیں، ان کے پاس طلائی زیورات جو کہ تقریباً ساڑھے تین تولہ اور چاندی تقریباً 25 تولہ کے قریب ہو گی۔ میری والدہ محترمہ نے وصیت کی تھی کہ میرا جتنا بھی زیور ہے یہ بیچ کر میری نواسی کی شادی میں تمام بھائیوں کی طرف سے دے دینا۔ ہم آٹھ بھائی اور بہنیں ہیں، تمام بھائی الگ الگ رہتے ہیں، میں تمام بھائیوں میں چھوٹا ہوں، والدہ محترمہ میرے ساتھ رہتی تھیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ جو زیور والدہ محترمہ کا ہے، اس پر ان کی وصیت کے مطابق عمل کریں یا کہ یہ زیور تمام بہن بھائیوں میں تقسیم ہو گا؟

وضاحت مطلوب ہے کہ والدہ کی اس زیور کے علاوہ بھی وراثت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ کتنی ہے؟ نیز دیگر بہن بھائی اس وصیت کو مانتے ہیں یا نہیں؟

جواب وضاحت: والدہ کی اس کے علاوہ کوئی وراثت نہیں، نیز کچھ بہن بھائی والدہ کی اس وصیت کو مانتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے۔

مزید وضاحت مطلوب ہے: (اور کچھ وصیت نہیں مانتے) سے کیا مراد ہے؟ کہ والدہ نے وصیت نہیں کی، یا وصیت تو مانتے ہیں، لیکن آگے پورا کرنے پر آمادہ نہیں۔

جواب وضاحت: وصیت کا تو سب کو معلوم تھا، کیونکہ والدہ اپنی زندگی میں کئی مرتبہ زبانی بات کر چکی تھی۔ لیکن کچھ وارث یہ کہہ رہے ہیں کہ زیور تقسیم کرو اور ہمیں ہمارا  حصہ دو۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک تہائی زیور وصیت کے مطابق دینا ضروری ہے باقی دو تہائی (2/3)  زیور ورثاء کا حق ہے لہذا جو  وارث راضی ہوں ان کے حصوں کے بقدر وصیت پر عمل کیا جائے گا۔ اور جو راضی نہ ہوں ان کو ان کا حصہ دیدیا جائے گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved