• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بہن کو جائیداد ملنے پر بھائیوں کااعتراض

استفتاء

گذارش ہے کہ تقریبا دس سال پہلے میرا ایک بیٹا سخت بیمار ہوگیا علاج بہت ہی مہنگا تھا بیٹے کی تمام جمع پونجی ختم ہوگئی علاج جاری تھا اورابھی مکمل طور پر وہ صحت یاب نہیں ہوا تھا ۔اس کی بیماری کی شدت دیکھ کر اس کے سسراور میرا ایک بیٹا میرے سرپر سوار ہوگئے کہ آپ اپنی زرعی زمین بیچیں  کیونکہ میں کچھ زرعی زمین کا مالک تھا میں اپنے بیمار بیٹے سے ملااور اسے کہا کہ میرے پاس بیٹی کے جہیز کےلیے اٹھارہ لاکھ روپیہ موجود ہے فوری طور پر وہ لے لیں اورمجھے بتائیں کہ مزید پیسوں کے لیے میں کتنی زمین بیچوں؟ بیٹے نے کہا فی الحال مجھے صرف اٹھارہ لاکھ روپیہ ہی دے دیں خدانخواستہ مزید ضرورت پڑی تو پھر زمین بیچیں گے۔میں نے غالبا اسی وقت یا دوسرے روز اٹھارہ لاکھ روپیہ اس کےحوالے کردیا اس کی بیوی بھی موجود تھی میری بیوی (جو مجھے تنگ کرتی رہتی تھی کہ بیٹے کے علاج کےلیے پیسوں کا بندوست کریں )نے منہ چڑھایا اور طعن آمیز انداز میں کہا کہ بیٹی کا جہیز تو تیار ہوگیا ۔میں نیشنل بینک میں ملازم تھا میں نے کہا بینک ایک کالونی بنارہا ہے اورمجھے بھی اس کےلیے ایک پلاٹ کی فائل مل گئی ہے اورفائل کی قیمت بھی آج اٹھارہ لاکھ روپیہ ہی ہے میں وہ پلاٹ بیٹی کو دیتا ہوں اس پر میری بیوی مطمئن ہوگئی اوربیٹی نے بھی یہ فیصلہ تسلیم کرلیا۔

مجوزہ کالونی کی  زمین سے  متعلق کئی مقدمے دائر ہوگئے آخر چھتیس سال بعد یہ زمین ڈی ایچ اے میں مدغم ہوگئی اورپلاٹ کی قیمت تقریبا ایک کروڑ روپیہ ہوگئی مگر ڈی ایچ اے نے تیرہ لاکھ پانچ ہزار تین سو روپے کا بطور ترقیاتی اخراجات کا مطالبہ کردیا ۔اتنی بڑی رقم نہ میرے پاس ہے اورنہ میری بیٹی کے پاس۔اس لیے میں نے ارادہ کیا پلاٹ بیچ کرپیسے بیٹی کے حوالے کردوں ،میرے بیٹوں نے کہا کہ اس میں ہمار ابھی حصہ ہے اورایک بیٹے نے تو دھمکی دے دی کہ میں دیکھتا ہوں کہ آپ میرا حصہ کیسے نہیں دیتے ،بات  ہمارے خطیب صاحب تک پہنچی میں نے خطیب صاحب کو بتایا کہ پلاٹ تقریبا دس سال پہلے بیٹی کے ہاتھ بیچ چکا ہوں اورپیسے اس سےلے کر جو اس کے جہیز کےلیے رکھے تھے بیمار بیٹے کو دے چکا ہوں اب یہ پلاٹ اسی کا ہے اس کےعلاوہ میرے پاس جو زرعی زمین تھی وہ میں نے ہر ایک کو ساڑھے چار چار ایکڑ تقریبا ایک ایک کروڑ کی سب کو دے دی ہے اورساڑھے چار ایکڑ اپنے پاس رکھ لی ہے نتیجۃ میرا شکرگزار ہونے کے بجائے بچوں میں سے ایک نے اوراس کی بیوی نے میری بیٹی کےساتھ بولنا بھی بندکردیا ہے ان کےاس رویہ کو دیکھ کربھی مجھے احساس ہوا ہے کہ میرے بعدتوپتہ نہیں میری بیٹی کے ساتھ ان کا کیا رویہ ہو گا کیونکہ بدقسمتی سے میں اس کے ہاتھ پیلےنہیں کرسکا۔

ہمارے خطیب صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں ہم آپ سے مزید تسلی کےلیے فتوی لے لیں مہربانی فرماکر فتوی صادر فرمائیں تاکہ میں اس مسئلے میں سرخرو ہوجاؤں ۔

یہ سوال ہمارے والد صاحب کے متعلق ہے میں ان کا بیٹا ہوں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ کیا اس پلاٹ میں ہمارا بھی حصہ ہے یا نہیں؟جبکہ والد صاحب حیات ہیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

والد کی زندگی میں والد کی جائیداد میں اولاد میں سے کسی کا کوئی شرعی حق نہیں بنتا لہذا مذکورہ پلاٹ میں آپ لوگوں (اولاد)کا کچھ حصہ نہیں ۔مذکورہ صورت میں چونکہ والد اپنے بیٹوں کو تقریبا ایک ایک کروڑ کی مالیت کے بقدر زرعی زمین دے چکے ہیں اس لیے اگر وہ مذکورہ پلاٹ اپنی بیٹی کو دے دیں تو ایسا کرنا نہ صرف جائز بلکہ افضل اوربہتر بھی ہے ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved