• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ذخیرہ اندوزی کن کن چیزوں میں جائز نہیں

استفتاء

۱) ذخیرہ کرنا کن کن چیزوں میں جائز نہیں ہے؟ مونگی ،تل  اور چنے کا کیا حکم ہے؟

۲) کسان اپنی گندم اگر خود رکھ لے اور بعد میں ریٹ مہنگا ہونے پر بیچے تو کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱) جس چیز کی ذخیرہ اندوزی سے عوام کو پریشانی و ضرر  (گرانی و قلت وغیرہ) ہو اس کا ذخیرہ کرنا جائز نہیں۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور امام محمد ؒ کے نزدیک اس میں صرف انسانوں اور حیوانوں کی غذائی اشیاء شامل ہیں جبکہ امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک ضرورت کی تمام اشیاء اس میں داخل ہیں۔ لہذا مونگی، تل اور چنے کی ذخیرہ اندوزی بالاتفاق جائز نہیں۔

۲) اپنی فصل کی پیداوار کو ذخیرہ کرنے میں اور جو چیز دوسرے شہر سے خرید کر لائی گئی ہواس میں ذخیرہ اندوزی کا   گناہ نہیں ہو گا۔لیکن  لوگوں کی حاجت کے وقت اپنی ضرورت سے زائد  کا فروخت کر دینا افضل ہے۔

رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر والاباحہ، فصل فی البیع( جلد نمبر 9صفحہ نمبر 656) پر ہے:

"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز ( والبهائم ) كتبن وقِتٍّ ( في بلد يضر بأهله ) لحديث { الجالب مرزوق والمحتكر ملعون } ” فإن لم يضر لم يكره۔۔۔۔۔( ولا يكون محتكرا بحبس غلة أرضه ) بلا خلاف

    قال ابن عابدين: ( قوله وكره احتكار قوت البشر ) الاحتكار لغة : احتباس الشيء انتظارا لغلائه والاسم الحكرة بالضم والسكون كما في القاموس ، وشرعا : اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلى الغلاء أربعين يوما لقوله عليه الصلاة والسلام ” { من احتكر على المسلمين أربعين يوما ضربه الله بالجذام والإفلاس } ” وفي رواية ” { فقد برئ من الله وبرئ الله منه } ” قال في الكفاية : أي خذله والخذلان ترك النصرة عند الحاجة  وفي أخرى ” { فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا } ” الصرف : النفل ، والعدل الفرض شرنبلالية عن الكافي وغيره وقيل شهرا وقيل أكثر وهذا التقدير للمعاقبة في الدنيا بنحو البيع وللتعزير لا للإثم لحصوله وإن قلت المدة وتفاوته بين تربصه لعزته أو للقحط والعياذ بالله تعالى در منتقى مزيدا ، والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد وعليه الفتوى كذا في الكافي ، وعن أبي يوسف كل ما أضر بالعامة حبسه ، فهو احتكار وعن محمد الاحتكار في الثياب ابن كمال .( قوله كتين وعنب ولوز ) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخنا لا عسلا وسمنا در منتقى ۔۔۔( قوله يضر بأهله ) بأن كان البلد صغيرا هداية۔۔۔۔ ( قوله ولا يكون محتكرا إلخ ) لأنه خالص حقه لم يتعلق به حق العامة ، ألا ترى أن له أن لا يزرع فكذا له أن لا يبيع هداية قال ط والظاهر أن المراد أنه لا يأثم إثم المحتكر وإن أثم بانتظار الغلاء أو القحط لنية السوء للمسلمين وهل يجبر على بيعه الظاهر نعم إن اضطر الناس إليه تأمل”

فتاوی عالمگیریہ ، کتاب البیوع، فصل فی الاحتکار(جلد نمبر 5صفحہ نمبر 65 )پر ہے:

"الاحتكار مكروه وذلك أن يشتري طعاما في مصر ويمتنع من بيعه وذلك يضر بالناس كذا في الحاوي وإن اشترى في ذلك المصر وحبسه ولا يضر بأهل المصر لا بأس به كذا في التتارخانية ناقلا عن التجنيس….لو زرع أرضه وادخر طعامه فليس بمحتكر كذا في الحاوي ولكن الأفضل أن يبيع ما فضل عن حاجته إذا أشتدت حاجة الناس إليه كذا في التتارخانية ناقلا عن المضمرات”

المحيط البرهانی فی الفقہ النعمانی، کتاب البیوع، فصل فی الاحتکار (جلد نمبر  10صفحہ نمبر 378) پر ہے:

"وكذلك لو زرع أرضه وادخر طعامه، فإنه لا يكره، فإنه في معنى الجالب؛ لأنه حدث بكسبه، ولأن ذلك خالص حقه ولم يتعلق به حق غيره فلا يكون احتكاره إبطالاً لحق الغير ولكن يستحب له البيع نظراً للناس وإشفاقاً بهم”

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ، کتاب الکراہیہ، فصل فی البیع (جلد نمبر8 صفحہ نمبر370)پر ہے:

واحتکار قوت الآدميين والبهائم في بلد لم يضر باهلها لا غلة ضيعته

شرح: ( واحتكار قوت الآدميين والبهائم في بلد لم يضر بأهلها ) يعني يكره الاحتكار في بلد يضر بأهلها لقوله عليه الصلاة والسلام { الجالب مرزوق والمحتكر ملعون } ولأنه تعلق به حق العامة وفي الامتناع عن البيع إبطال حقهم وتضييق الأمر عليهم فيكره هذا إذا كانت البلدة صغيرة يضر ذلك بأهلها أما إذا كانت كبيرة فلا يكره ؛ لأنه حابس ملكه ، وتخصيص الاحتكار بالأقوات قول الإمام والثالث ، وقال أبو يوسف : كل ما يضر العامة فهو احتكار ، بالأقوات كان أو ثيابا أو دراهم أو دنانير اعتبارا لحقيقة الضرر ؛ لأنه هو المؤثر في الكراهة ۔۔۔۔۔ قال : رحمه الله ( لا غلة ضيعته وما جلبه من بلد آخر ) يعني لا يكره احتكار غلة أرضه وما جلبه من بلد آخر لأنه خالص حقه فلم يتعلق به حق العامة فلا يكون احتكارا ألا ترى أن له أن لا يزرع ولا يجلب فكذا له أن لا يبيع وهذا في المجلوب قول الإمام خاصة فإن حق العامة لا يتعلق بما جلب فصار كغلة ضيعته والجامع تعلق حق العامة به”

مسائل بہشتی زیور حصہ دوم صفحہ نمبر 252 پر ہے:

"جس ذخیرہ اندوزی سے انسانوں کی غذائی اجناس اور چوپایوں کے چارے میں قلت پیدا ہوجائے یا مہنگائی ہوجائے اور اس طرح شہر والوں کو نقصان اور ضرر ہوتا ہو تو وہ ذخیرہ اندوزی بالاتفاق ناجائز ہے۔غذائی اجناس کے علاوہ دیگر اشیاء میں امام ابوحنیفہؒ (اور امام محمدؒ)کے نزدیک ذخیرہ اندوزی جائز ہے لیکن امام ابو یوسفؒ کے نزدیک کسی بھی چیز میں ذخیرہ اندوزی ناجائز ہے”

فتاوی محمودیہ جلد نمبر16 صفحہ نمبر 234پر ہے:

"سوال(۷۸۹۳):  ایک شخص کی آمدنی کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ وہ پیاز ، لہسن ، آلو، گیہوں وغیرہ خرید کر جمع کر لیتا ہے اور جب یہ چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں تب بیچتا ہے۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب: اگر بستی میں یہ اشیاء بکثرت موجود ہیں اور اس شخص کے خریدنے سے کوئی تنگی پیش نہیں آتی اور دیر بعد جب موسم نہ رہے، ان کو گراں فروخت کرتا ہے اور گراں بھی اس قدر جو کہ قابل برداشت ہے تو اس میں گناہ نہیں، اس کی آمدنی درست ہے۔ اگر اس کے خریدنے سے تنگی اور پریشانی ہوتی ہے اور وہ نا قابل برداشت گراں فروخت کرتا ہے تو یہ سخت گنہگار ہے اور یہ طریقہ موجب لعنت ہے”

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved