• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سابقہ طلاق کی نیت سے طلاقنامہ بھیجنے سے طلاق

استفتاء

مفتی صاحب میں نے اپنی بیوی کو بذریعہ موبائل فون text message (میسج) کر کے دو بائنہ طلاقیں دی تھیں جس کے الفاظ یہ تھے :

“bhot ho gya abb bus aaj tum apny bhai se baat karo abb last option hy tum abb muj say last decision lo .meri trf say farigh ho.meri trf say tum azad ho talaq”

ترجمہ:  بہت ہو گیا اب بس آج تم اپنے بھائی سے بات کرو اب لاسٹ آپشن ہے تم اب مجھ سے لاسٹ ڈیسین لو "میری طرف سے فارغ ہو میری طرف سے تم آزاد ہو طلاق ”

اُس کے بعد میں نے فتویٰ (جوکہ ساتھ لف ہے)  لے کر دوبارہ تجدیدِ نکاح کر لیا تھا اور بیوی کو لے آیا۔ اُس وقت تجدیدِ نکاح سے قبل میں نے طلاق بائنہ کے کوئی تحریری کا غذات نہیں بنائے تھے ۔جب میں بیوی کو بعد از صلح لایا تو بعض گھریلومعاملات کی وجہ سے ناچاقی پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے میں نے سابقہ بائنہ طلاقوں کا ہی سوچ کر طلاق اول کا نوٹس اسٹام پیپر پر بنوا کر بذریعہ ڈاک بھیج دیا۔ تیسری طلاق کا میں نے ارادہ نہیں کیا تھا۔ برائے مہربانی آپ وضاحت فرما دیں کہ کیا میرا نکاح باقی ہے؟ اگر نکاح کے باقی رہنے کی کوئی گنجائش ہے تو بحوالہ قرآن وحدیث مجھے فتویٰ دے دیں۔

طلاقنامے کی عبارت:

” ……………….لہٰذا من مقر نے فیصلہ کیا ہے کہ من مقر مسماۃ مذکوریہ کو طلاق اول دے رہا ہوں ، لہٰذا من مقر مسماۃ مذکوریہ کو طلاق دیتا ہوں اور لفظ طلاق ایک بار استعمال کرتے ہوئے طلاق اول دیتا ہوں ………………….

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذكوره صورت میں  تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے  بیوی شوہر پر حرام ہوگئی ہےلہذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور  نہ صلح  کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے جو میسج کے ذریعہ طلاق دی وہ تحریر کی غیر مرسوم صورت ہے جس میں طلاق واقع ہونے کے لیے شوہر کی نیت ہونا ضروری ہے ۔ شوہر چونکہ خود سوال میں اقرار کر رہا ہے کہ میں نے دو طلاقیں دی تھیں اس لیے میسج کی تحریر سے طلاقیں واقع ہو جائیں گی جس کی تفصیل یہ ہے کہ شوہر کے اس جملے  سے کہ”میری طرف سے تم فارغ ہو ” ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی پھر اس جملے سے کہ "میری طرف سے تم آزاد ہو ” البائن لا يلحق البائن  کے تحت مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی پھر لفظ "طلاق” سے الصريح يلحق البائن بشرط العدة کے تحت  مزید ایک طلاق واقع ہو گئی اور کل د و بائنہ طلاقیں ہوگئیں۔پھر شوہر نے تجدید نکاح کر لیا اور شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار باقی تھا چنانچہ  اس کے بعد طلاقنامہ کی وجہ سے تیسری طلاق بھی ہو گئی کیونکہ شوہر نے اگرچہ طلاقنامہ سابقہ طلاق کی نیت سے بھیجا تھا لیکن  چونکہ مذکورہ طلاقنامہ کتابتِ مرسوم کے درجے میں ہے جوکہ نیت کا محتاج نہیں ہوتا اور طلاقنامے میں مذکورہ الفاظ اقرار اوراخبار کے نہیں ہیں بلکہ انشاء کے ہیں  اس لیے سابقہ طلاق کی  نیت ہونے کے باوجود  تیسری طلاق واقع ہوگئی ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی صلح کی گنجائش ہے ۔

شامی(3/246) میں ہے:

وان كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو

بدائع الصنائع  (3/173) میں ہے:

وإن كتب كتابة مرسومة على طريق الخطاب والرسالة مثل أن يكتب أما بعد يا فلانة فأنت طالق أو إذا وصل كتابي إليك فأنت طالق يقع به الطلاق. ولو قال ما أردت به الطلاق أصلا لا يصدق إلا أن يقول نويت طلاقا من وثاق فيصدق فيما بينه وبين الله عز وجل لأن الكتابة المرسومة جارية مجرى الخطاب

فتاویٰ النوازل لابی اللیث السمرقندی(ص215) میں ہے:

ثم الكتاب إذا كان مستبيناً غير مرسوم كالكتابة على الجدار وأوراق الأشجار وهو ليس بحجة من قدر على التكلم فلا يقع إلا بالنية والدلالة.

درمختار (4/528) میں ہے:

(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة.

نہر الفائق(2/363) میں ہے:

(لا) يلحق البائن (البائن)

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

احسن الفتاوی (5/188) میں ہے:

سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے "تو فارغ ہے ” یہ کون سا کنایہ ہے؟…… حضرت والا اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔بینوا توجروا

جواب :الجواب باسم ملہم الصواب

 بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ فقط اللہ تعالی اعلم۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved