• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا موبائل فون پر طلاق دینے سے طلاق نہیں ہوتی؟

استفتاء

میں نے غصہ میں آکر اپنی  بیوی کو طلاق دے دی۔ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ موبائل پر طلاق نہیں ہوتی اور کچھ کا کہنا ہے کہ موبائل پر طلاق ہوجاتی ہے۔ میں باہر کے ملک میں تھا اور ہم دونوں کی فون پر بحث ہورہی تھی، میں نے غصے میں اسے کہا کہ” میں تمہیں چھوڑدوں گا”اس نے آگے سے کہا کہ جہاں کل چھوڑنا ہے وہاں آج اور ابھی چھوڑدو،میں نے غصے میں دو دفعہ کہا کہ” میں نے تے نوں طلاق دی "اور خاموش ہوگیا اور پھر کچھ دیر کے بعد اس نے کہا کہ  ایک دفعہ اور طلاق دو،میں بھی غصہ میں تھا میں نے بولا کہ "میں نے تے نوں طلاق دی” میں نہیں جانتا تھا کہ تین دفعہ یہ الفاظ بولنے سے طلاق  ہوجاتی ہے اور واپسی کا کوئی راستہ  نہیں ہوتا اور تھوڑی دیر کے بعد جب میرا غصہ کم ہوا اور میں نے اسے بولا کہ چھوڑو یار مجھ سے غلطی ہوگئی ، معاف کردو  تو اس نے بولا میری اور آپ کی طلاق ہوچکی ہے اب سب ختم ہوگیا۔ میں نے بولا ایسے تھوڑا ہوتا ہے۔رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے، لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر  کا یہ جملہ کہ”میں تمہیں چھوڑ دوں گا” مستقبل میں طلاق کی دھمکی کے الفاظ ہیں اور مستقبل میں طلاق کی دھمکی کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوتی لہذا شوہر کے اس جملہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، پھر اس کے بعد جب شوہر نے دو مرتبہ یہ جملہ کہا کہ” میں نے تے نوں طلاق دی ” تو اس سے دو طلاقیں واقع ہوگئیں پھر اس کے بعد بیوی کے مطالبہ پر جب شوہر نے دوبارہ یہ جملہ کہا کہ”میں نے تے نوں طلاق دی” تو اس سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی،  مذکورہ صورت میں شوہر کا یہ کہنا کہ” میں نہیں جانتا تھا کہ تین دفعہ یہ الفاظ بولنے سے طلاق  ہوجاتی ہے اور واپسی کا کوئی راستہ  نہیں ہوتا” اس کا اعتبار نہیں کیونکہ شریعت کے احکام میں جہالت عذر نہیں اس  لیے اس جہالت کے باوجود تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔

الفتاوی من اقاویل المشائخ فی الاحکام الشرعیۃ لابی اللیث سمرقندی(251)میں ہے:

سئل ابوالقاسم :عن رجل قال لامرأته فى حال الغضب :انك ان فعلت كذا الى خمس سنين فتصيرى مطلقة مني و أراد بذلك توبيخها مخافة أن تفعل ذلك،ففعلت المرأة قبل انقضاء المدة ذلك الفعل،هل يقع الطلاق عليها؟قال يسأل الرجل هل كان حلف بطلاقها؟فان أخبر بيمين بالطلاق عمل على ما أخبر به،و ان قال:لم أكن حلفت فالقول قوله مع يمينه،و لا يقع بذلك الطلاق.

تنویر الابصار(4/448)میں ہے:

صريحه ما لم يستعمل إلا فيه كطلقتك وأنت طالق ومطلقة ويقع بها واحدة رجعية وإن نوى خلافها أو لم ينو شيئا

وقال الشامي تحته:(قوله أو لم ينو شيئا)لما مر أن ‌الصريح ‌لا ‌يحتاج ‌إلى ‌النية

درمختار مع رد المحتار(4/509)میں ہے

‌كرر ‌لفظ ‌الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين

(قوله ‌كرر ‌لفظ ‌الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

شامی (4/179)میں ہے:

(قوله لتفرغها للعلم) أي ‌لأنها ‌تتفرغ ‌لمعرفة ‌أحكام الشرع والدار دار العلم فلم تعذر بالجهل بحر أي أنها يمكنها التفرغ للتعلم لفقد ما يمنعها منه، وإن لم تكلف به قبل بلوغها

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved