• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق دینےیا نہ دینے کے بارے میں میاں بیوی کا اختلاف

استفتاء

میرے شوہر نے مجھے ایک طلاق رات کے وقت دی جس کے الفاظ یہ ہیں "میں نے تجھے طلاق دی ” اور دو طلاقیں صبح کے وقت دیں جن کے الفاظ یہ ہیں "میں نے تجھے طلاق دی ،طلاق” اور یہ بات بولنے کے بعد اب وہ اس کا انکار کر رہے ہیں کہ میں نے کوئی طلاق نہیں دی اور قرآن اور کلمے کی قسمیں اٹھا رہے ہیں اور میرے پاس طلاق کے گواہ بھی نہیں ہیں کیونکہ میرے بچے سب چھوٹے ہیں ۔ ہمارے چھ بچے ہیں جو اس وقت میرے پاس ہیں ۔اس بات کو تقریبا ڈیڑھ ماہ ہو چکا  ہے ۔ مہر بانی فرماکر راہنمائی فرمائیں کہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں ؟

شوہر کا موقف :

 میں نے کبھی طلاق نہیں دی ۔ معاملہ یہ تھا کہ کراچی جانے کے بارے میں ہماری بات ہوئی یہ ضد کر رہی تھی کہ نہیں جانا اگر جائیں گے تو مجھے چھوڑ کر جائیں گے ۔ میں کراچی آگیا ۔ اس بات کی وجہ سے یہ ایسا کہہ رہی ہے ۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا ۔ میرے چھ بچے ہیں ۔ میں آئندہ بھی اگر یہ مطالبہ کرے تب بھی طلاق نہیں دوں گا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر کے بیان کے مطابق کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی تاہم بیوی کے بیان کے مطابق خود بیوی کے حق میں  تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی کا  شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں، اور بیوی کے حق میں صلح یا رجوع کی  بھی گنجائش نہیں۔

توجیہ: جب بیوی خودشوہر سے  طلاق کے الفاظ سن لے  تو بیوی کے لیے اپنے سُنے ہوئے الفاظ  پر عمل کرنا ضروری ہے۔مذکورہ صورت میں چونکہ  بیوی نے  شوہر سے تین مرتبہ طلاق کے الفاظ خود سنے ہیں لہٰذا  بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور تین طلاقوں کے بعد صلح یا رجوع کی گنجائش نہیں ہوتی۔

تنویر الأبصار مع درمختار(4/443)میں ہے:

‌(صريحه ‌ما ‌لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)…… (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح……. (واحدة رجعية وإن نوى خلافها) من البائن أو أكثر خلافا للشافعي (أو لم ينو شيئا).

درمختار مع ردالمحتار(4/509) میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل.

(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

ردالمحتار(4/449)میں ہے:

والمرأة كالقاضي ‌إذا ‌سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved