• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم

استفتاء

میں ایک لڑکی سے محبت کرتا تھا اور 2 ماہ قبل عدالت میں نکاح کر لیا ۔ نکاح میں ایجاب و قبول وغیرہ سب ہو گیا لیکن نکاح عدالت میں باقاعدہ ابھی تک رجسٹرڈ نہیں کیا اور نہ ہی رخصتی ہوئی لیکن میاں بیوی والا تعلق علیحدگی میں قائم ہوا ہے  اور وہ اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہے، میں گزشتہ کچھ عرصے سے ذہنی طور پر کافی ڈسٹرب ہوں اور مجھے حد سے زیادہ غصہ آتا ہے اتنا زیادہ کہ میں غصے میں اپنے ہوش و حواس کھو دیتا ہوں جس  کی وجہ سے میں اپنی بیوی کو بے وجہ اور بے بنیاد گالیاں نکالتا ہوں اور الزام تراشی کرتا ہوں، اس پر بے بنیاد پابندیاں لگاتا ہوں ہر وقت پریشان کرتا ہوں، ایک ہفتے قبل 14 اگست والے دن میری بیوی نے  اپنی فیملی کے ساتھ کہیں جانے کی اجازت مانگی جو میں نے دے دی میری بیوی چلی گئی اور جب وہ راستے میں جا رہی تھی تو مجھے حسب عادت اس پر شک ہونے لگا اور میں نے اسے کال کر کے منع کر دیا کہ وہاں  نہیں  جانا اور ساتھ کہا کہ "اگر تم وہاں چلی گئی تو میں طلاق دے دوں گا” چونکہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ تھی تو اس کا واپس آ نا ممکن نہیں تھا اور وہ وہاں چلی گئی،  میں نے کال کی اور پوچھا کہ کہاں ہو؟ اس نے بتایا کہ میں وہاں آ چکی ہوں،  مجھے حد سے زیادہ غصہ آ گیا اور اس کو3 بار کہا کہ "میں تجھے طلاق دیتا ہوں” 5 منٹ بعد میرے ہوش و حواس بحال ہوئے تو مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا، جب میں نے طلاق دی تب میری بیوی حالت حیض میں تھی، میرا غصہ اتنا شدید تھا کہ مجھے غلطی کا احساس نہیں ہوا اس واقعہ سے ایک دن قبل میں نے اپنی بیوی کو کہا بھی تھا کہ میری ذہنی حالت بہت خراب ہے اور جب مجھے غصہ آئے تو تم خاموش ہو جانا چونکہ میں نے شک کی بنیاد پر اور اپنی ذہنی حالت کی بنیاد پر طلاق دی ہے اور میری ذہنی حالت بہت شکی اور حد سے زیادہ غصے والی ہے اور جب مجھے غصہ آئے تو میں آپے سے باہر ہو جاتا ہوں اور ایسی حالت میں، میں اپنےہوش و حواس کھو بیٹھتا ہوں مجھے کوئی ہوش نہیں رہتی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ، نہ صرف اپنی منکوحہ کے ساتھ بلکہ اپنے والدین اور سبھی کے ساتھ میں ایسا ہو جاتا ہوں۔ ایسی صورت حال میں آپ مجھے بتائیں کہ کیا طلاق واقع ہو گئی ہے  یا نہیں؟

تنقیح: اس وقت کوئی خلاف عادت قول یا فعل نہیں  پایا گیا اور مجھے علم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ، اس بات کا بھی علم تھا کہ تین مرتبہ طلاق دی ہےلیکن غصہ شدید تھا اور 5 منٹ بعد بہت ندامت ہوئی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب  نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر نے غصے کی حالت میں طلاق دی ہے لیکن غصے کی نوعیت ایسی نہیں تھی کہ اسے کچھ پتہ ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اور نہ ہی غصے میں اس سے خلاف عادت کوئی قول یا فعل صادر ہوا ہے، غصے کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہذا مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے،لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے، اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔نیز حالت حیض میں طلاق دینا اگرچہ ناپسندیدہ ہے تاہم حالت حیض میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

ہندیہ(1 / 527) میں ہے:

"إذا طلق امرأته في حالة الحيض كان عليها الاعتداد بثلاث حيض كوامل ولاتحتسب هذه الحيضة من العدة، كذا في الظهيرية”

ہدایہ (1/233) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها

تنویر الأبصار مع درمختار(4/443)میں ہے:

‌(صريحه ‌ما ‌لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)…… (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح……. (واحدة رجعية وإن نوى خلافها) من البائن أو أكثر خلافا للشافعي (أو لم ينو شيئا).

درمختار مع رد المحتار(4/509)میں ہے:

   كرر لفظ الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

فتاوی ہندیہ(2/411)میں ہے:

وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية.

فتاوی شامی (4/439) میں ہے:

قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله……………

 فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved