• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زکوٰۃ کے متعلق سوالات

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں  کہ:

1۔ *** نے  اپنے گھر میں اہل محلہ کے بچوں اور بچیوں کی دینی تربیت کے لیے ایک مکتب کی بنیاد رکھی چنانچہ مکتب کی بنیادی ضرورتوں  میں سے کچھ  کو اپنی ذاتی رقم سے اور کچھ کو زکوۃ کی رقم سےتملیک کرا کے  پورا کیا پھر اساتذہ کی تنخواہوں  اور دیگر ضروریات کی خاطر بچوں اور بچیوں پر ماہانہ مناسب فیس مقرر کی۔ اب فیس کی جمع شدہ رقم سے ضروریات پوری کرنے کے بعد باقی ماندہ رقم کو *** اپنے استعمال میں لا سکتا ہے یا نہیں؟ نیز مکتب کی دیگر بڑی ضروریات کے لیے عوام الناس سے زکوۃ کی رقم لے سکتا ہے یا نہیں؟

2۔*** نے عمرو کو زکوۃ کی رقم دے کر کہا کہ فلاں شخص کو دے دینا اب عمرو وہ رقم اپنے استعمال میں لا کر دوسری رقم اپنے پاس سے اس شخص کو دے سکتا ہے یا نہیں؟

3۔*** نے سادات کو زکوۃ کی رقم دینے کے لیے زکوۃ کی رقم تملیک کرا کے اپنے گھر میں رکھی پھر *** کو گھر سے دور ایک سید ملا تو اس نے اپنی ذاتی رقم اس کو دیدی اور تملیک شدہ رقم سے اس  دی ہوئی رقم کے بقدر رقم لے لی تو یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے: سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟

جواب وضاحت: یہ ہماری فقہی مجلس بلوچستان کا سوالنامہ ہے، اس کا جواب درکار ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔فیس قیمت سے باقی ماندہ رقم اپنے استعمال میں لانا درست ہے تا ہم اس صورت میں مکتب کی ضروریات کے لیے زکوۃ لینا درست نہیں کیونکہ اس صورت میں زکوۃ لینے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی آدمی دکان کھولے اور خرید و فروخت سے جو نفع آئے اسے اپنے ذاتی استعمال میں لائے اور دکان کی ضروریات کے لیے عوام الناس  سے زکوۃ کے اپیل کرے اور اس زکوۃ کی تملیک کرا کے دکان کی ضروریات پوری کرے، ظاہر ہے کہ جس طرح اس صورت کی اجازت نہیں دی جا سکتی اس طرح سوال میں مذکورہ صورت کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

2۔*** کی اجازت سے کر سکتا ہے بغیر اجازت کے نہیں کر سکتا۔

3۔یہ صورت جائز ہے۔

شامی(2/360) میں ہے:

أن المفتى به مذهب المتأخرين ‌من ‌جواز ‌الاستئجار على تعليم القرآن …….

شامی(3/224) میں ہے:

(ولو تصدق إلخ) أي الوكيل بدفع الزكاة ‌إذا ‌أمسك ‌دراهم الموكل ودفع من ماله ليرجع ببدلها في دراهم الموكل صح. بخلاف ما إذا أنفقها أولا على نفسه مثلا ثم دفع من ماله فهو متبرع.

عمدۃ القاری(9/92) میں ہے:

قوله: (هو عليها صدقة) ، قدم لفظ: (عليها) ليفيد الحصر أي: عليها صدقة لا علينا، وحاصله أنها إذا قبضها المتصدق زال عنها وصف الصدقة وحكمها، فيجوز للغني شراها، للفقير وللهاشمي أكله منها

شامی (9/116) میں ہے:

(قوله: ‌وأصله ‌حديث ‌بريرة) يوهم أنها أهدت إليه – صلى الله عليه وسلم – بعدما عجزت مع أنها أهدت إليه وهي مكاتبة كما في العناية ح. (قوله: هي لك) الذي في الهداية وشروطها ” لها ” بضمير الغائبة. (قوله: فإنها تطيب له) لما مر أن الخبث في فعل الأخذ. (قوله: لأن الملك لم يتبدل) لأن المباح له يتناوله على ملك المبيح. ونظيره المشتري شراء فاسدا إذا أباح لغيره لا يطيب له  ………..

البحر الرائق(2/424) میں ہے:

‌والحيلة ‌في ‌الجواز في هذه الأربعة أن يتصدق بمقدار زكاته على فقير ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون لصاحب المال ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب

کفایت المفتی(4/289) میں ہے:

سوال  (۱)  سید کو بحالت عسر و فقر زکوٰۃ کا روپیہ بلا حیلہ شرعی کے دینا درست ہے یا نہیں ؟(۲) ایک شخص ایک مدرسہ میں زکوٰۃ کا روپیہ بھیجتا ہے اب وہاں کوئی طالب علم ایسا نہیں ہے جس کو زکوٰۃ دیجائے تو یہ روپیہ کسی دوسرے مدرسہ کو یا ایسے اشخاص کو جو ضرورت مند ہوں باجازت زکوٰۃ دہندہ یا بلا اجازت دینا درست ہے یا نہیں ؟

جواب: (۱)  سید کو زکوٰۃ و عشر کا روپیہ یا غلہ دینا درست نہیں ۔ہاں  حیلہ کرکے دیا جائے تو مضائقہ نہیں حیلہ کی صورت یہ ہے کہ کسی غیر سید غریب کو یہ کہہ کر دیدیا جائے کہ فلاں سید کو  دینا تھا مگر وہ سید ہے اس کے لئے زکوٰۃ جائز نہیں لہذا تم کو دیتے ہیں اگر تم یہ کل یا بعض اس کو بھی اپنی طرف  سے دیدو تو بہتر ہے اور وہ لیکر دیدے تو سید کے لئے جائز ہے ۔(۲)  زکوٰۃ کی تملیک کرکے مدرسہ کے کسی دوسرے کام میں خرچ کرسکتے ہیں  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved