• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کرومائیٹ میں خمس کا حکم

استفتاء

(1)کیا کرومائٹ میں شرعاً خمس واجب ہے؟(2) اگر واجب ہے تو  اسلامی نظام نہ ہونے کی صورت میں کیا حکم ہے؟

وضاحت : اسلامی نظام نہ ہونے سے آپ کی کیا مراد ہے؟

جواب وضاحت: مطلب یہ کہ اگر کسی ملک میں  اسلامی نظام نہ ہو یا بیت المال نہ ہو  تو  خمس کس کو ادا کریں ؟ کیا خود مدارس وغیرہ میں دے سکتےہیں یا بیت المال کو دینا ہی ضروری ہے؟

تنقیح: کرومائٹ ایک معدن ہے جو کرومیم اور  آئرن آکسائڈ کا مرکب ہوتا ہے۔اسے  اسٹیل تانبہ شیشہ اور سیمنٹ کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔اور یہ پگھلانے سے پگھل بھی جاتی ہے۔ چنانچہCORE نامی ویب سائٹ   میں مندرجہ ذیل عبارت ہے:

Large amount of energy is required to sm elt chromite to produce ferrochromium or metallic chromium. According to Keesara (2009), up to 4,000 KWh of energy per ton material weight is required for smelting of chromite.

ترجمہ: کرومائٹ کو پگھلانے کے لیے ایک بہت بڑی مقدار میں توانائی درکار ہوتی ہے جس کے نتیجے میں فیروکرومیم یا میٹالک کرومیم بنتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق کرومائٹ کو پگھلانے کے لیے فی ٹن مادی وزن میں 4000 کلو واٹ فی گھنٹہ  کے حساب سے تونائی درکار ہوتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)کرومائیٹ میں خمس واجب ہے۔(2)ا گر  کسی ملک میں اسلامی نظام بھی ہو اور بیت المال  بھی ہو پھر بھی اس کا خمس مستحقین کو دیا جاسکتا ہے۔ نیز اس کے مستحقین صرف تین قسم کے لوگ ہیں:

(۱)وہ یتیم جو محتاج ہو(۲)مساکین (۳)وہ مسافر جو محتاج ہو۔

لہٰذا اگر یہ خمس کسی مدرسے میں دیا جائے تو صرف ان تین قسم کے لوگوں کو دیا جاسکتا ہے ان کے علاوہ کسی اور کو دینا درست نہیں۔

توجیہ: کرومائیٹ ایسی جامد  دھات ہے جو پگھلانے سے پگھل جاتی ہے اور ایسی دھات کسی کو اپنی مملوکہ یا غیر مملوکہ زمین میں ملے تو اس میں خمس واجب ہوتا ہے۔

المبسوط للسرخسي (3/ 17)میں ہے:

(قال) ‌من ‌أصاب ‌ركازا ‌وسعه أن يتصدق بخمسه على المساكين وإذا أطلع الإمام على ذلك أمضى له ما صنع؛ لأن الخمس حق الفقراء والمساكين وقد أوصله إلى مستحقه، وهو في إصابة الركاز غير محتاج إلى حماية الإمام فكان هو في الحكم كزكاة الأموال الباطنة وإن كان محتاجا إلى جميع ذلك وسعه أن يمسكه لنفسه لقول علي – رضي الله تعالى عنه – وإن وجدتها في قرية خربت على عهد فارس فخمسها لنا وأربعة أخماسها لك وسنتمها لك أي نعطيك الخمس منها أيضا؛ ولأن وجوب الخمس في المصاب باعتبار أنه مما أوجف عليه المسلمون فلا يكون الوجوب على المصيب خاصة فهو في كونه مصرفا كغيره

شامی(3/ 311)میں ہے:

ومن أصاب ركازا وسعه أن ‌يتصدق ‌بخمسه على المساكين فإذا اطلع الإمام على ذلك أمضى له ما صنع

ہندیہ (1/ 184) میں ہے:

ما يخرج من المعادن ثلاثة منطبع بالنار، ومائع، وما ليس بمنطبع، ولا مائع أما المنطبع كالذهب والفضة والحديد والرصاص والنحاس والصفر ففيه الخمس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولا یجب فیما یجب فی داره وارضه من المعدن عند ابي حنيفة رحمه الله وقالا يجب كذا في التبيين

شامی (4/ 149) میں ہے:

(والخمس) ‌الباقي ‌يقسم ‌أثلاثا عندنا (لليتيم والمسكين وابن السبيل) وجاز صرفه لصنف واحد فتح، وفي المنية لو صرفه للغانمين لحاجتهم جاز وقد حققته في شرح الملتقى

وفي الشامية: (قوله وقد حققته في شرح الملتقى) ونصه والخمس الباقي من المغنم كالمعدن والركاز يكون مصرفها لليتامى المحتاجين والمساكين وابن السبيل فتقسم عندنا أثلاثا هذه الأموال الثلاثة لهؤلاء الأصناف الثلاثة خاصة غير متجاوز عنهم إلى غيرهم، فتصرف لكلهم أو لبعضهم، فسبب استحقاقهم احتياج بيتم أو مسكنة أو كونه ابن السبيل فلا يجوز الصرف لغنيهم، ولا لغيرهم كما في الشرنبلالية والقهستاني

فتاویٰ دار العلوم دیوبند(6/59)میں ہے:

سوال: مقام پھلواری ضلع  پٹنہ میں  صوبہ بہاٹ و اڑیسہ کے لیے بیت المال و امیر شریعت مقرر کیے گئے ہیں۔ مبلغین زکوٰۃ و عشر کے لیے بھیجے گئے لیکن اکثر جگہووں سے وصول نہیں ہوتا بلکہ حاضرین حقدار فقراء و مساکین پر تقسیم کر دیتے ہیں بیت المال میں نہیں بھیجتے تو زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے یا نہیں؟

جواب: اس صورت میں زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے قال اللہ تعالیٰ انما الصدقٰت للفقراء والمساکین الاٰیۃ

مسائل بہشتی زیور(1/389) میں ہے:

معدن اور کان سے نکلنے والی چیزیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک جامد  دوسرے سیال،  پھر جامد کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ چیزیں جو پگھل سکتی ہیں جیسے سونا، چاندی، لوہا، سیسہ، تانبا وغیرہ۔ دوسرے وہ چیزیں جو پگھلتی نہ ہوں جیسے چونا، نمک،جواہرات اور مختلف قسم کے پتھر۔ غیر جامد اور سیال جیسے پٹرول، مٹی کا تیل اور تارکول۔

کسی کو یہ چیزیں غیر مملوکہ زمین یا اپنی مملوکہ  زمیں میں ملیں تو پگھلنے والی جامد چیزوں میں سے پانچواں حصہ یعنی بیس فیصد بیت المال کا ہو گا اور باقی پانے والے کا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved