• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اسکول میں رکھی گئی سیکورٹی کی رقم پر زکوۃ

استفتاء

میں ایک اسکول میں کام کرتی ہوں ۔ وہاں انہوں نے میری تنخواہ سے  25 ہزار روپے کاٹ کر  سیکورٹی کے طور پر رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ پیسے مجھے تب ملیں گے جب میں سکول چھوڑوں گی اس سے پہلے نہیں ملیں گے ۔میں پوچھنا یہ چاہتی ہوں کہ ان 25 ہزار روپے کو ابھی سے میں اپنی  اس رقم کے ساتھ شمار  کروں گی جس کی زکوۃ دینی ہے یا جب تک 25 ہزار مجھے نہیں ملیں گے تب تک  اس  زکوۃ والے مال میں شمار نہ کروں ؟ فی الحال  سکول چھوڑنے کا  بھی کوئی پتہ نہیں کہ کب چھوڑنا ہے ۔

تنقیح : یہ رقم میرے حوالہ نہیں کی گئی  تھی بلکہ  تنخواہ سے کٹوتی کرلی گئی تھی   ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ 25 ہزار روپے کی آپ  پر زکوۃ واجب نہیں ہے ۔جب یہ رقم آپ کو مل جائے  تو اپنی سالانہ زکوۃ کے ساتھ اسے شامل کرکے اس کی زکوۃ ادا کریں ۔

توجیہ : اسکول کی حیثیت مستاجر کی ہے اور ملازم کی حیثیت اجیر کی اور مذکورہ رقم اجیر کی خدمت کا بدل یعنی اجرت ہے  جو کہ ابھی اجیر کے قبضہ میں نہ آنے  کی وجہ سے   مستاجر پر دین ہے ۔  اجیر کی خدمت چونکہ مال نہیں ہے اس لیے اس خدمت کا بدل ہونے کی حیثیت سے یہ رقم دین ضعیف ہے  جس کا حکم یہ ہے کہ اس کے وصول ہونے کے بعد آئندہ سالوں کی زکوۃ واجب ہوگی ۔

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع (2/ 10)  میں ہے :

«وأما الدين الضعيف فهو الذي وجب له بدلا عن شيء سواء وجب له ‌بغير ‌صنعه كالميراث، أو بصنعه كما بوصية، أو وجب بدلا عما ليس بمال كالمهر، وبدل الخلع، والصلح عن القصاص، وبدل الكتابة ولا زكاة فيه ما لم يقبض كله ويحول عليه الحول بعد القبض.

وأما الدين الوسط فما وجب له بدلا عن مال ليس للتجارة كثمن عبد الخدمة، وثمن ثياب البذلة والمهنة وفيه روايتان عنه، ذكر في الأصل أنه تجب فيه الزكاة قبل القبض لكن لا يخاطب بالأداء ما لم يقبض مائتي درهم فإذا قبض مائتي درهم زكى لما مضى، وروى ابن سماعة عن أبي يوسف عن أبي حنيفة أنه لا زكاة فيه حتى يقبض المائتين ويحول عليه الحول من وقت القبض وهو أصح الروايتين عنه»

امدادا لفتاوی ( 2/77) میں ہے :

حر کی خدمت کو عبد کی خدمت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا کہ حسب تصریحات فقہاء خدمت عبد فی الجملہ مال ہے اور خدمت حر مال نہیں ہے اس لیے ظاہر یہی ہے کہ یہ دین   دین ضعیف میں داخل ہے ۔

الغرض پراویڈنٹ فنڈ کا روپیہ دین قوی میں داخل نہیں ہو سکتا اور دین متوسط میں داخل کرنا بھی اس وقت تک کسی روایت پر منطبق نہیں ہے جب تک کہ حر کی خدمت کو مال قرار دینے کی تصریح نہ ملے اور بالفرض اس میں داخل مان بھی لیا جائے تو حکم اس کا بھی اصح روایت پر دین ضعیف کی طرح یہی ہے کہ اس پر ایام ماضیہ کی زکوۃ واجب نہیں ہے

احسن الفتاوی ( 4/270 ) میں ہے :

گورنمنٹ پراویڈنٹ فنڈ میں حکومت مستاجر ہے اور ملازم اجیر ہے فنڈ کی رقم مستاجر ( حکومت ) کے قبضے میں رہتی ہے اس پر اجیر کا قبضہ نہیں ہوتا۔ قبض نہ ہونے کی وجہ سے بدستور حکومت پر دین ہے لہذا اس پر زکوۃ فرض نہیں وصول ہونے کے بعد بھی اس پر گزشتہ زمانے کی زکوۃ نہیں بلکہ آئندہ کے لیے زکوۃ فرض ہوگی ۔

لانه دين ضعيف كدين المهر ولا يقاس على دين اجرة الارض والدار والعبد فانه دين متوسط لان منفعة المال مال من وجه والحر ليس بمال فدين اجرته ليس بمقابل للمال الحقيقي ولا الحكمي على ان الدين المتوسط ايضا كالدين الضعيف في عدم وجوب الزكاة على الراجح.

امدادالاحکام ( 2/17) میں ہے :

صورت مسؤلہ میں  یہ رقم ابھی زید کی ملک  میں نہیں  آئی اس لیے ابھی  اداء زکوۃ واجب  نہیں ہے ۔ ہاں یہ رقم چونکہ گورنمنٹ کے ذمہ دین ہے اور یہ دین ضعیف ہے اس لیے اداء زکوۃ بعد قبض مال و حولان حول کے  واجب ہوگا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 قال في الشامية ……………. وكذلك في المحيط فإنه ذكر الديون الثلاثة وفرع عليها فروعا آخرها أجرة دار أو عبد للتجارة قال: إن فيها روايتين: في رواية لا زكاة فيها حتى تقبض ويحول الحول؛ لأن المنفعة ليست بمال حقيقة فصار كالمهر.

وفي ظاهر الرواية تجب الزكاة ويجب الأداء إذا قبض نصابا؛ لأن المنافع مال حقيقة، لكنها ليست بمحل لوجوب الزكاة؛ لأنها لا تصلح نصابا إذ لا تبقى سنة

قلت : وهذا انما هو في اجرة دار التجارة وعبد التجارة واما اجرة الحر فينبغي ان تكون كالمهر بلا خلاف لان منافع الحر ليست بمال حقيقة وعلى هذا فهي من الضعيف لا تجب فيه الاداء الا بعد القبض وحولان الحول.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved