• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

میت کی طرف سے عمرہ ادا کرنے کا حکم

استفتاء

1۔ کیا میت  کی طرف  سے خود عمرہ کر سکتے ہیں یا کسی دوسرے شخص کو عمرہ کروا سکتے ہیں ؟

2۔اگر اس کی اجازت ہے تو  کیا دوسرے کی طرف سے کیا ہوا  عمرہ اپنی طرف سے شمار ہوگا   اور میت کو ثواب میں شریک سمجھیں گے یا عمرہ صرف میت کی طرف سے شمار ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔میت کی طرف سے خود بھی عمرہ کیا جاسکتا ہے اور کسی دوسرے کو بھی کروایا جا سکتا ہے ۔

2۔ اس میں دونوں صورتیں  ہوسکتی ہیں ؛ ایک یہ کہ عمرہ کرنے والا عمرہ اپنی  طرف سے کرے اور صرف ثواب میت کو پہنچائے ۔ دوسری صورت   یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عمرہ ہی میت کی طرف سے  کیا جائے۔ بہرحال دونوں صورتوں میں عمرہ کرنے والے  کو بھی ثواب ملتا ہے اور میت جس کو ثواب پہنچایا  ہے  یا جس کی طرف سے عمرہ کیا ہے اس کو بھی ثواب پہنچے گا۔

الدر المختار مع رد المحتار(2/595)میں ہے:

الأصل أن كل من أتى بعبادة ما، له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه لظاهر الأدلة.

(قوله بعبادة ما) أي سواء كانت صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء – عليهم الصلاة والسلام -۔۔۔۔الخ

(قوله لغيره) أي من الأحياء والأموات بحر عن البدائع. قلت: وشمل إطلاق الغير النبي – صلى الله عليه وسلم – ولم أر من صرح بذلك من أئمتنا، وفيه نزاع طويل لغيرهم.

رد المحتار (2/243) میں ہے:

صرح علماؤنا في باب الحج عن الغیر بأنّ للإنسان أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صومًا أو صدقةً أو غیرها، كذا في الهدایة. بل في زكاة التتارخانیة عن المحیط: الأفضل لمن یتصدّق نفلًا أن ینوي لجمیع المؤمنین و المؤمنات؛ لأنّها تصل إلیهم، ولاینقص من أجره شيءٍ اه هو مذهب أهل السنة والجماعة.

ردالمحتار (2/244) میں ہے:

وبالغ السبكي وغيره ‌في ‌الرد ‌عليه، بأن مثل ذلك لا يحتاج لإذن خاص؛ ألا ترى أن ابن عمر كان يعتمر عنه – صلى الله عليه وسلم – عمرا بعد موته من غير وصية

ردالمحتار(2/243) میں ہے:

والظاهر أنه لا فرق بين أن ينوي به ‌عند ‌الفعل ‌للغير أو يفعله لنفسه ثم بعد ذلك يجعل ثوابه لغيره، لإطلاق كلامهم، وأنه لا فرق بين الفرض والنفل. اهـ. وفي جامع الفتاوى: وقيل: لا يجوز في الفرائض

البحر الرائق(3/105) میں ہے:

قال ابن نجیم رحمه الله : من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابه لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابها إليهم  عند أهل السنة والجماعة -إلخ

خیر الفتاوی (4/214) میں ہے:

سوال:ایک شخص سعودی عرب میں ہے نفل حج بدل کے لئے کوئی شرط نہیں دو سر املتان میں ہے۔ ملتان والا اگر سعودیہ والے کو پیغام بھیجے کہ میری طرف سے حج یا عمرہ کر دیں یا سعودیہ والا آدمی اپنے کسی زندہ یا مردہ آدمی کا حج یا عمرہ ادا کرے تو جائز ہے ؟

جواب: نفل حج یا عمرہ مُردہ کی طرف سے ہو یا زندہ کی طرف سے جائز ہے اور حج فرض دوسرے کی طرف سے کیا جائے تو اس کے لئے متعدد شرائط ہیں جن کی موجودگی میں یہ بھی درست ہے عام حالات میں جائز نہیں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل(5/265) میں ہے:

سوال: شوال کے مہینے میں ایک عمرہ اپنی والدہ مرحومہ کی طرف سے کرنے کا ارادہ ہے، میں عمرہ اپنی طرف سے کر کے ثواب ان کو بخش دوں، یا عمرہ ان کی طرف کروں؟ اس کا کیا طریقہ کار ہوگا اور نیت کس طرح کی جائے گی ؟

جواب … دونوں صورتیں صحیح ہیں ، آپ کے لئے آسان یہ ہے کہ عمرہ اپنی طرف سے کر کے ثواب ان کو بخش دیں۔اور اگر ان کی طرف سے عمرہ کرنا ہو تو احرام باندھتے وقت یہ نیت کریں کہ : ” اپنی والدہ مرحومہ کی طرف سے عمرہ کا احرام باندھتا ہوں ، یا اللہ ! یہ عمرہ میرے لئے آسان فرما اور میری والدہ کی طرف سے اس کو قبول فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved