• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کا اپنے والدین سے ملنے کا حق

استفتاء

1۔اسلامی شریعت میں شوہر کتنے دنوں کے بعد اپنی بیوی کو والدین سے ملنے کے لیے بھیجنے کا پابند ہے؟

2۔اگر بیوی  ایک یا دو دن رات اپنے والدین کے گھر رہنے کا اصرار کرےاور شوہر منع کرے تو بیوی کے لیے کیا حکم ہے؟میری بیوی ہر 21دن(ہر تیسرے ہفتے)کو اپنے والدین کے پاس جاتی ہےاور وہاں دو رات رہتی ہےجبکہ میں اس سے کہتا ہوں کہ وہ جاکر پورا دن وہاں گزارے لیکن رات کو گھر واپس آجائے لیکن وہ اس پر راضی نہیں ہوتی میں اسے کیسے سمجھاؤں۔براہ کرم شریعت کی روشنی میں میری راہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔اس میں مختلف اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ہفتے میں ایک مرتبہ بھیجنے کا پابند ہے یعنی اگر عورت جانا چاہے تو ایک  ہفتے میں ایک مرتبہ بھیجنے کا پابند ہے اور ایک قول یہ ہے کہ عرف ورواج کے مطابق گاہے گاہے بھیجنے کا پابند ہے۔

نیز مذکورہ دونوں قول بھی بعض اہل علم کے نزدیک اس صورت میں ہیں جب والدین نہ آسکتے ہوں اور بعض کے نزیک والدین آسکتے ہوں یا نہ آسکتے ہوں بہر صورت اجازت ہے۔

2مذکورہ صورت میں بیوی کا اپنے والدین کے گھر رات رہنا یا ایک  دو دن رات رہنے پر اصرار کرنا درست نہیں اور بیوی شوہر کی بات ماننے کی پابند ہےلہذا اگر بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر والدین کے پاس رات کو رہےگی تو گناہ گا ر ہوگی۔

نوٹ: مذکورہ باتیں مسئلے کی رُو سے تو درست ہیں تاہم بعض اوقات محض حقوق کی بنیاد پر ازدواجی رشتوں کو نبھانا مشکل ہوجاتا ہے اس لیے شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ کبھی کبھار بیوی کو اس کے والدین کے گھر رات، دو رات رہنے کی اجازت دیدیا کرے اور بیوی کو بھی چاہیے کہ وہ ہمیشہ رات ، دو رات  رہنے پر اصرار نہ کرے۔

الدر المختارمع الشامی (5/ 329)میں ہے:

‌ولا ‌يمنعها ‌من ‌الخروج ‌إلى ‌الوالدين) في كل جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار.

(قوله على ما اختاره في الاختيار) الذي رأيته في الاختيار شرح المختار: هكذا قيل لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين وقيل يمنع…….. نعم ما ذكره الشارح اختاره في فتح القدير حيث قال: وعن أبي يوسف في النوادر تقييد خروجها بأن لا يقدرا على إتيانها، فإن قدرا لا تذهب وهو حسن، وقد اختار بعض المشايخ منعها من الخروج إليهما وأشار إلى نقله في شرح المختار. والحق الأخذ بقول أبي يوسف إذا كان الأبوان بالصفة التي ذكرت، وإلا ينبغي أن يأذن لها في زيارتهما في الحين بعد الحين على قدر متعارف، أما في كل جمعة فهو بعيد، فإن في كثرة الخروج فتح باب الفتنة خصوصا إذا كانت شابة والزوج من ذوي الهيئات، بخلاف خروج الأبوين فإنه أيسر وهذا ترجيح منه لخلاف ما ذكر فى البحر أنه الصحيح المفتى به من انها تخرج للوالدين فى كل جمعة بإذنه وبدونه وللمحارم فى كل سنة مرة بإذنه وبدونه.

البحر الرائق (4/ 212)میں ہے:

قالوا الصحيح أنه لا يمنعها من ‌الخروج ‌إلى ‌الوالدين ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة وفي غيرهما من المحارم في كل سنة وإنما يمنعهم من الكينونة عندها وعليه الفتوى كما في الخانية، وعن أبي يوسف في النوادر تقييد خروجها بأن لا يقدر على إتيانها فإن كانا يقدران على إتيانها لا تذهب وهو حسن فإن بعض النساء لا يشق عليها مع الأب الخروج، وقد يشق على الزوج فتمتنع، وقد اختار بعض المشايخ منعها من الخروج إليهما، وقد أشار إلى نقله في شرح المختار والحق الأخذ بقول أبي يوسف إذا كان الأبوان بالصفة التي ذكرت وإن لم يكونا كذلك ينبغي أن يؤذن لها في زيارتهما الحين بعد الحين على قدر متعارف أما في كل جمعة فبعيد فإن في كثرة الخروج فتح باب الفتنة خصوصا إذا كانت شابة والزوج من ذوي الهيئات بخلاف خروج الأبوين فإنه أيسر، ولو كان أبوها زمنا مثلا وهو يحتاج إلى خدمتها والزوج يمنعها من تعاهده فعليها أن تعصيه مسلما كان الأب أو كافرا، كذا في فتح القدير.

 وأما الخروج للأهل زائدا على ذلك فلها ذلك بإذنه قال في الظهيرية ويجوز للرجل أن يأذن لها في الخروج إلى زيارة الوالدين وتعزيتهما وعيادتهما وزيارة المحارم وفي الخلاصة معزيا إلى مجموع النوازل يجوز للرجل أن يأذن لها بالخروج إلى سبعة مواضع زيارة الأبوين وعيادتهما أو أحدهما وزيارة المحارم فإن كانت قابلة أو غسالة أو كان لها على آخر حق تخرج بالإذن وبغير الإذن والحج على هذا وفيما عدا ذلك من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمة لا يأذن لها ولا تخرج.

ہندیہ (1/ 556)میں ہے:

وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها، أو أمها، أو أحدا من أهلها من الدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك قال بعضهم: لا يمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وبه أخذ مشايخنا  رحمهم الله تعالى وعليه الفتوى كذا في فتاوى قاضي خان وقيل: لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرة، وعليه الفتوى كذا في غاية السروجي وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر، وقال مشايخ بلخ في كل سنة وعليه الفتوى، وكذا لو أرادت المرأة أن تخرج لزيارة المحارم كالخالة والعمة والأخت فهو على هذه الأقاويل كذا في فتاوى قاضي خان وليس للزوج أن يمنع والديها وولدها من غيره وأهلها من النظر إليها وكلامها في أي وقت اختاروا هكذا في الهداية.

فتح القدیر (4/ 398)میں ہے:

وقوله هو الصحيح احتراز عما ذهب إليه ابن مقاتل من أنه لا يمنع المحرم من الزيارة في كل شهر. وعن أبي يوسف في النوادر تقييد خروجها بأن لا يقدرا على إتيانها، فإن كانا يقدران على إتيانها لا تذهب وهو حسن، فإن بعض النساء لا يشق عليها مع الأب الخروج وقد يشق ذلك على الزوج فتمنع، وقد اختار بعض المشايخ منعها من الخروج إليهما، وقد أشار إلى نقله في شرح المختار، والحق الأخذ بقول أبي يوسف إذا كان الأبوان بالصفة التي ذكرت، وإن لم يكونا كذلك ينبغي أن يأذن لها في زيارتهما في الحين بعد الحين على قدر متعارف، أما في كل جمعة فهو بعيد، فإنه في كثرة الخروج فتح باب الفتنة خصوصا إذا كانت شابة والزوج من ذوي الهيئات، بخلاف خروج الأبوين فإنه أيسر، ولو كان أبوها زمنا مثلا وهو محتاج إلى خدمتها والزوج يمنعها من تعاهده فعليها أن تغضبه مسلما كان الأب أو كافرا.

فتاویٰ قاضیخان علی ہامش الہندیہ(1/428) میں ہے:

واذا اراد الزوج أن يمنع اباها أو امها او احدًا من اهلها عن الدخول عليها في منزله اختلفوا فيه. قال بعضهم: له أن يمنع عن الدخول ولا يمنعهم عن النظر والتكلم والقيام على باب الدار والمرأة في الداخل و يمنع من النظر من لا يكون محرما ويتهمه الزوج. وقال بعضعهم: لا يمنع  الأبوين من الدخول عليها للزيارة فى كل جمعة وانما يمنعهم من الكينونة عندها و به اخذ مشائخنارحمهم الله تعالى وعليه الفتوى وهل يمنع غير الابوين عن الزيارة ، قال بعضهم:له  ان يمنع، وقال بعضهم: لا يمنع المحرم عن الزيارة في كل شهر، وقال مشائخ بلخ (رح)فی كل سنة وعليه الفتوى وكذا لو ارادت المرأة ان تخرج لزيارة المحارم كالخالة والعمة والاخت فهو علی هذه الاقاویل.

امداد الفتای جدید(4/379)میں ہے:

سوال :  فلاں شخص یعنی خسر اپنی لڑکی کو لے گئے تو حضور میرا نقصان ہوا بلا میری مرضی کے لے گئے اور یوں کہتے ہیں کہ کیا ہمارا حق نہیں رکھنے کا اور اب خبر نہیں کہ وہ کب تک رکھیں ؟

اب حضور یہ کمترین یہ بات دریافت کرتا ہے کہ ماں باپ کو کتنا حکم ہے اپنے گھر رکھنے کا یا یہ ہے کہ اگر چار مہینے خاو ند کے یہاں توآٹھ مہینے باپ کے گھر اور حضور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے لڑکی کوئی بیع نہیں کردی ہے؟

الجواب:في الدر المختار:(‌ولايمنعها ‌من ‌الخروج إلى الوالدين) في كل جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار ولو أبوها زمنا مثلا فاحتاج فعليها تعاهده ولو كافرا وإن أبى الزوج.فتح (ولا يمنعها من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول زيلعي.

وفي رد المحتار: فإن قدرا لا تذهب وهو حسن، وقد اختار بعض المشايخ منعها من الخروج إليهما وأشار إلى نقله في شرح المختار. والحق الأخذ بقول أبي يوسف إذا كان الأبوان بالصفة التي ذكرت، وإلا ينبغي أن يأذن لها في زيارتهما في الحين بعد الحين على قدر متعارف، أما في كل جمعة فهو بعيد، فإن في كثرة الخروج فتح باب الفتنة خصوصا إذا كانت شابة والزوج من ذوي الهيئات، بخلاف خروج الأبوين فإنه أيسر. اهـ

اس سے معلوم ہوا کہ جس جوان عورت کے ماں باپ اس کے پاس خود آسکتے ہوں شوہر اگر اس کو بالکل نہ جانے دے تو ماں باپ کو کچھ اختیار نہیں بلکہ خود آکر مل جایا کریں اور اگر نہ آسکتے ہوں تو موافق عرف اوررواج کے کبھی کبھی اس عورت کو جائز ہے کہ ماں باپ کے گھر چلی جاوے اور باربار جانا اور زیادہ رہنا جائز نہیں۔

امداد المفتین(ص:476)میں ہے:

سوال:عورت کو بغیر اجازت شوہر کے اپنے والدین کے یہاں جانا جائز ہے یا نہیں؟اور اگر یہ سوال کونسل میں پیش کیا جائے تو کوئی خرابی تو نہیں ہے؟

جواب:اس قانون میں کوئی شرعی خرابی نہیں بلکہ اس کی تمام دفعات قواعد شرعیہ کے ما تحت ہیں عورت کو بغیر خاوند کی اجازت کے کسی جگہ نہ جانا چاہیے نہ والدین کے گھر اور نہ اور کسی رشتہ دار کے یہاں البتہ اگر والدین اپاہج اور محتاج خدمت ضعیف وبیمار ہوں اور کوئی خدمت کرنے والا نہ ہواور خاوند ان کے پاس جانے کی اجازت نہ دے تو پھر زوجہ کو شرعا اختیار ہےکہ کبھی کبھی جاکر ان کی خدمت اور نگرانی کیا کرے اگرچہ خاوند اس پر ناراض ہونیز خاوند کےلیے مناسب ومستحب ہےکہ بغیر ایسی ضرورت شدید کے بھی گاہ گاہ اس کے والدین کے یہاں جانے کی اجازت دے دیا کرے…..

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved