• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کا الگ مکان کا مطالبہ کرنا

استفتاء

میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ ” بیوی کس  کس  صورتحال میں اپنے شوہر سے الگ گھر کی فرمائش یا مطالبہ کر سکتی ہے؟  ”  میرا یہ سوال پوچھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک جوائنٹ فیملی میں رہتے ہیں ۔ ہماری فیملی میں میرے شوہر ، میں اور ہمارے دو بچے ہیں ۔ دوسری فیملی میرے دیور کی ہے ۔ہم ایک کرائے کے مکان میں رہتے ہیں ، ایک کمرہ ہمارا ہے اور ایک کمرہ ان کا ہے ، کچن ایک ہی استعمال ہوتا ہے ۔ در اصل کچھ ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے میں نے اپنے شوہر سے الگ گھر کی خواہش کی ہے ، ہماری شادی کو گیارہ سال ہو  گئے ہیں ما شاء اللہ لیکن میری دیورانی  کی کچھ حرکتوں کی وجہ سے میں بہت پریشان رہتی ہوں وہ زبان چلاتی ہے ، کوئی کام کرتی ہے تو بہت جتاتی ہے ، ساس سسر جب یہاں رہنے آتے ہیں تو دکھاوا بہت کرتی ہے تیور بہت دکھاتی ہے ۔ گھر کی صفائی میں بھی برابر کرتی ہوں ، لیکن کام کر کے دکھاوا کرنا اور جتانا یا کسی سے بد تمیزی سے پیش آنا میری عادت نہیں ہے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ  میں پردہ کرتی ہوں ، میرے شوہر کو میرا تیار رہنا بہت اچھا لگتا ہے اور خود مجھے بھی اپنے شوہر کے لیے  صاف ستھرے اور تیار رہنے کا بہت  شوق ہے ،لیکن اگر میں اپنے شوہر کے لیے لپ اسٹک اور کاجل بھی لگاتی ہوں تو جب میں کمرے سے باہر نکلتی ہوں تو ہمارے کمرے کے بالکل سامنے  دیور کا کمرہ ہے ، اور کچن میں بھی جب جاتی ہوں تو بہت بے پردگی ہوتی ہے ، نہ چاہتے ہوئے بھی سامنا ہو جاتا ہے ، جبکہ میں نے بڑی چادر لی ہوتی ہے اور یہ چیز مجھے بہت بری لگتی ہے ۔

تیسری وجہ یہ ہےکہ ہمارا کمرہ اتنا بڑا نہیں ہے کہ ہم اپنے  بچوں کے بستر نیچے فرش پر لگا سکیں ۔میری بیٹی نو سال کی ہے اور بیٹا  سات سال کا ہے ما شاء اللہ تو بچوں کی ایسی عمر ہے کہ جب وہ ماں باپ کے ساتھ ایک ہی کمرے میں سوتے ہیں  تو میاں بیوی کی یعنی میرے اور میرے شوہر کی کوئی پرائیویسی نہیں رہتی۔میاں بیوی کو خاص طور پر رات میں جو پرائویسی چاہیے ہوتی ہے اپنی خواہشات کے لیے وہ بالکل ختم ہوتی جا رہی ہے جو کہ میاں بیوی کے لیے نہایت ضروری ہے ۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ جب میں  لوگوں کے برے رویے  سے مایوس  اور دلبرداشتہ ہو کر اپنے شوہر سے اپنے دل کی باتیں شئیر کرتی ہوں تو وہ بھی کبھی کبھار تو میری باتیں سن لیتے ہیں اور کبھی مجھے ہی غلط کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں اور غصہ ہو جاتے ہیں ۔ پھر دوسروں کی وجہ سےمیرے اور میرے شوہر کے درمیان تلخ کلامی اور ناراضگی ہو جاتی ہے ۔میں الگ گھر کا مطالبہ اس لیے کر رہی ہوں کہ میں اپنے گھر میں اپنے بچوں کے لیے ایک دینی ماحول قائم کرنا چاہتی ہوں ، جہاں میں اپنے پردے کا بھی صحیح سے خیال رکھ سکوں ، اپنے شوہر کے لیے ہر وقت  بن سنور کرتیار  رہ سکوں تا کہ کسی نا محرم کی وجہ سے مجھے مشکل نہ ہو اور اپنے شوہر اور  اپنے بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی اور ذہنی  سکون والی زندگی گزار  سکوں ۔

برائے مہربانی مجھے  یہ بتا دیں  کہ ان ساری وجوہات کی بناء پر میں الگ گھر کی خواہش کر سکتی ہوں   کہ مجھے جلد ہی الگ  گھر مل جائے ؟ کیونکہ شوہر کی تنخواہ اتنی اچھی ہے الحمد للہ کہ شوہر جیسے ابھی کرائے کے مکان میں رہ  رہے ہیں ویسے ہی دوسرے گھر میں بھی رہ سکتے ہیں ،تو میرامطالبہ جائز ہے یا نہیں ؟ اور شوہر کا بھی اس صورتحال میں کیا فرض بنتا ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا صورتحال ایسے ہی ہے جیسی سوال میں بیان کی گئی ہے  تو آپ کا الگ گھر کا مطالبہ کرنا شرعا درست ہے، کیونکہ شرعی طور پر شوہر کے ذمے لازم ہے کہ وہ  عورت کو ایسی جگہ رکھے جہاں وہ اپنا مال و اسباب حفاظت سے  رکھ سکے  ، خود اس میں رہے اور اس کی  چابی  اس کے پاس ہو ، اور  کسی اور  کو اس میں دخل نہ ہو ۔ا ور  اگر شوہر  مالدار ہو تو اس صورت میں  الگ  بیت الخلاء اور الگ کھانا پکانے کی جگہ بھی ہونی چاہیے ۔

نوٹ : الگ گھر کا مطلب ہے کہ چاہے بلڈنگ ایک ہی ہو لیکن فلیٹ یا پورشن میں کسی اور کاعمل دخل نہ ہو ۔

الدر المختار مع ردالمحتار(3/600)میں ہے:

بيت منفرد من دار له غلق زاد في الاختيار والعيني ومرافق ومراده لزوم كنيف ومطبخ وينبغي الإفتاء به.

فتاویٰ ہندیہ (1/556)میں ہے:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك”. (الباب السابع عشر في النفقات

رد المحتار: (3/600) میں ہے:

قوله ( وفي البحر عن الخانية ) عبارة الخانية فإن كانت دار فيها بيوت وأعطى لها بيتا يغلق ويفتح لم يكن لهاأن تطلب بيتا آخر إذا لم يكن ثمة أحد من أحماء الزوج يؤذيها ا ه

قال المصنف في شرحه فهم شيخنا أن قوله ثمة إشارة للدار لا البيت لكن في البزازية أبت أن تسكن مع أحماء الزوج وفي الدار بيوت إن فرغ لها بيتا له غلق على حدة وليس فيه أحد منهم لا تمكن من مطالبته ببيت آخر

العقود الدریۃ (1/ 70) میں ہے:

واعلم أن المسكن أيضا لا بد أن يكون بقدر حالهما كما في الطعام والكسوة فليس مسكن الأغنياء كمسكن الفقراء فقولهم يعتبر في النفقة حالهما يشمل الثلاثة لما في الخلاصة أن النفقة إذا أطلقت تنصرف إلى الطعام والكسوة والسكنى اهـ ملخصا ونحوه في النهر فتنبه لذلك

فتاوی شامی(3/574) میں ہے:

"قال في البحر: واتفقوا على وجوب نفقة الموسرين إذا كانا موسرين، وعلى نفقة المعسرين إذا كانا معسرين وإنما الاختلاف فيما إذا كان أحدهما موسرا والآخر معسرا، فعلى ظاهر الرواية الاعتبار لحال الرجل، فإن كان موسرا وهي معسرة فعليه نفقة الموسرين، وفي عكسه نفقة المعسرين. وأما على المفتى به فتجب نفقة الوسط في المسألتين وهو فوق نفقة المعسرة ودون نفقة الموسرة”۔

مسائل بہشتی زیور(2/82) میں ہے:

مسئلہ:گھر میں ایک جگہ عورت کو الگ کر دے جہاں وہ اپنا مال و اسباب حفاظت سے رکھے اور خود اس میں رہے اور اس کی کنجی قفل اپنے پاس رکھے کسی اور کو اس میں دخل نہ ہو فقط عورت ہی کے قبضہ میں رہے تو بس حق ادا ہو گیا۔ اگر مال دار ہو تو اس حصہ میں بیت الخلاء اور کھانا پکانے کی جگہ بھی ہو۔

فتاویٰ عثمانی (2/569) میں ہے:

جواب:۔ ***کے اوپر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کے نان ونفقہ اور رہائش کا اس طرح انتظام کرے کہ وہ کسی کی محتاج نہ رہے ، اور رہائش کے لئے ایسا مقفل کمرہ ، باورچی خانہ اور بیت الخلاء ہونا ضروری ہے جس میں کسی دوسرے کا اشتراک نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved