• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بائع سے ملنے والا ڈسکاؤنٹ مرابحہ میں خریدار کو دینا

استفتاء

میں مارکیٹ سے مال خریدتا ہوں اور جس شخص سے میں خریداری کرتا ہوں اس کے ساتھ ریٹ طے ہوتا ہے البتہ  حساب ایک مخصوص عرصے کے بعد کرتا ہوں   اور آگے جس کو مال فروخت کرتاہوں تو اسے مرابحہ  کی بنیاد پر  نفع رکھ کر بیچتا ہوں ایک مرتبہ میں نے اپنے بائع سے حساب کتاب کیا تو جو ریٹ ہم نے فکس کیا  ہوا تھا اس نے اس ریٹ میں سے مجھے کچھ روپے چھوڑدیے جبکہ وہ مال  میں اس ریٹ کی بنیاد پر آگے عقد مرابحہ  کے طور پر بیچ چکا تھا تو مجھے جو چھوٹ ملی ہے وہ میں اپنے خریدار کو دینے کا پابند ہوں یا نہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جو چھوٹ آپ کو ملی ہے وہ  آپ اپنے خریدار کو دینے کے پابند ہیں البتہ  اگر وہ  اپنی رضامندی  سے آپ کو دینے پر تیار ہو تو اس کی مرضی ہے۔

توجیہ:   مذکورہ صورت میں وہ کمی  حط فی الثمن شمار ہوگی اور حط فی الثمن اصل ِ عقد کےساتھ لاحق ہوتی ہے، جس کا اثر مرابحہ میں بھی ظاہر ہوتا ہے  لہذا  مذکورہ صورت میں ثمن میں جو تخفیف ہوئی ہے وہ مشتری ثانی کو دینا  لازم ہے۔

ہندیہ (3/163) میں ہے:

إذا حط البائع عن المشتري بعض الثمن باعه مرابحة بما بقي بعد الحط وكذلك لو حط عنه بعدما باع حط بعد ذلك عن المشتري الثاني مع حصته من الربح

ہندیہ(3/173) میں ہے:

حط بعض الثمن صحيح ويلتحق بأصل العقد عندنا كالزيادة سواء بقي محلا للمقابلة وقت الحط أو لم يبق محلا كذا في المحيط.

إذا وهب بعض الثمن عن المشتري قبل القبض أو أبرأه عن بعض الثمن فهو حط فإن كان البائع قد قبض الثمن ثم حط البعض أو وهب بأن قال وهبت منك بعض الثمن أو قال حططت بعض الثمن عنك صح ووجب على البائع رد مثل ذلك على المشتري ولو قال أبرأتك عن بعض الثمن بعد القبض لا يصح الإبراء كذا في الذخيرة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved