• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے میں طلاق دینا

استفتاء

شوہر کا بیان:

میرا نام*** ہے میرے اور میری بیوی کے درمیان دو تین  دنوں سے لڑائی چل رہی تھی پھر 7 فروری 2023 کی صبح جب میں اٹھا تو اٹھتے ساتھ میری بیوی سے میری لڑائی ہوئی ، میں چونکہ  ابھی سو کر اٹھا تھا  اس لیے  لڑائی میں غصے کی کیفیت میں ، میں نے اپنی بیوی کو اس  کا نام لیکر       تین دفعہ طلاق  دیدی، طلاق کےالفاظ یہ تھے "صالحہ میں نے تجھے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی” پھر اس سب کے بعد میری بیوی کے گھر والے اسے لے گئے لیکن جب میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی اس وقت وہ حاملہ تھی اور ہمیں یہ بات معلوم نہ تھی، پھر دو سے تین دن میں ہم دونوں میاں بیوی نے آپس میں زبانی صلح کرلی اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے لیے رضامند تھے لیکن ہمیں اپنے گھر والوں کی آپس میں رنجش کی وجہ سے زبردستی یونین کونسل میں طلا ق کا نوٹس جمع کروانا پڑا پھر  یونین کونسل سے پہلا نوٹس  14 فروری2023 کو گیا تا ہم  اس نوٹس  کے بعد میری اور میری بیوی کے درمیان مزید رابطے  بحال ہوئے جس میں ہم نے ہمبستری بھی کی، گھر والوں کو میں نے بہت منانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مان رہے تھے اور مجھے بلیک میل بھی کررے تھے  جس وجہ سے میں نے اور میری بیوی نے وقتی طور پر خاموشی اختیار کی، میری طرف سے یونین کونسل میں تینوں نوٹس  جمع ہوگئے تھے مگر میری بیوی کو صرف ایک نوٹس  موصول ہوا۔ اس دوران میرے اور میری بیوی کے درمیان مسلسل رابطہ بھی تھا  اور ہم کئی دفعہ ہمبستری بھی کرچکے تھے اسی دوران  میری بیوی نے ڈاکٹر کو دکھایا       تو معلوم ہوا کہ بچے کو ڈھائی ماہ ہوگئے ہیں لیکن اس کی نشونما  ایک ماہ کے بچے  کی تھی  تو ڈ اکٹر نے اسے ایک ہفتے کا وقت دیا  جس میں اگر بچے کی نشونما ٹھیک ہوسکی تو بچہ کو زندہ رکھیں گے ورنہ کینسر کے خطرے کی وجہ سے بچہ ضائع کرنا پڑے گا پھر ایک ہفتہ بعد بھی  بچے کی نشونما ٹھیک نہیں تھی تو ڈاکٹر نے بچہ ضائع کردیا  اور اس سب کے بعد  پھر میں نے اپنی بیوی کو علیحدہ گھر لے کر دیا اور اس کی تمام ضروریات کا  خیال رکھا اور اس کے ساتھ رہنا شروع کیا  اور پھر  یونین کونسل سے  نوٹس  رک تو گیا مزید یہ کہ ہماری طلاق کا مسئلہ یونین کونسل سے آگے نہیں گیا کیونکہ میری بیوی کو دوسرا اور تیسرا نوٹس بھی وصول نہیں ہوا تو معاملہ آگے بڑھا ہی نہیں تھا تو اب میں اور میری بیوی آپس میں ایک ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں اور ہمارے والدین کو بھی اس کا علم ہے۔ اگر اسلامی قوانین کے مطابق کوئی بھی لچک موجود ہے تو ہم پر کرم کریں اور کوئی راستہ بتائیں تاکہ ہم گناہ  سے بچ سکیں۔

بیوی کا بیان:

میرا نام صالحہ ایاز ہے۔ میرے اور میرے شوہر کے درمیان دو تین   دنوں سے لڑائی ہورہی تھی ، پھر 7 فروری 2023 کی صبح جب ہم سو کر اٹھے تو ہم دونوں کے درمیان پھر لڑائی ہوئی اور میرے شوہر نے  جو کہ نیند سے بیدار ہوئے  تھے اور غصے کی حالت میں تھے  مجھے تین  دفعہ میرا نام لیکر  طلاق دیکر کمرے سے چلے گئے۔ طلاق کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ” صالحہ میں نے تجھے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی” اس سب کے بعد میرے گھر والے آکر مجھے وہاں سے لے گئے، پھر  جب میرے شوہر نے مجھے طلاق دی اس وقت میں امید سے تھی  اور اس بات کا ابھی صرف اندازہ تھا یقین نہیں تھا، پھر انہی دو سے تین دنوں میں میری اور میرے شوہر کی بات چیت ہوئی اور ہم دونوں کے درمیان زبانی صلح ہوگئی اور ہم دونوں آپس میں رہنے کے لیے رضامند تھے لیکن اسی دوران ہمارے گھر والوں کی آپس میں لڑائی کی وجہ سے وہ ہمیں ایک نہیں ہونے دے رہے تھے، کچھ میرے شوہر کے گھر والے بہت زیادہ غصے میں تھے تو انہوں نے میرے شوہر کو بلیک میل   اور زبردستی کرکے ا ن سے  یونین کونسل کا نوٹس بھجوایا، طلاق کا پہلا نوٹس مجھے 14فروری2023 کو وصول ہوا تھا ، ا س سب کے بعد میرا اور میرے شوہر کا رابطہ مسلسل قائم تھا اور ہم نے آپس میں ملاقات بھی کی اور ہمارے درمیان ہمبستری بھی ہوئی، میں نے اور  میرے شوہر نے گھر والوں کو منانے کی بہت کوشش کی مگر شوہر کے گھر والے رضامند نہیں  تھے تو اس وجہ سے ہمیں وقتی طور پر خاموشی اختیار کرنا پڑی اس دوران میرے اور میرے شوہر کے درمیان کئی بار ہم بستری بھی ہوئی مسلسل طبیعت خراب رہنے کی وجہ سے میں نے ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو مجھے پتہ لگا کہ میرا بچہ اڑھائی ماہ کا ہے مگر حالات  کی وجہ میرے بچے کی نشوونما پر اثر پڑا ہے  اور ڈاکٹر نے بتایا کہ بچے کی نشونما نہیں ہو رہی اور وہ ایک ماہ کا لگ رہا ہے ،ہم کچھ دوائیاں دیتے ہیں اگر بچے کی نشو نما ایک ہفتے میں نہیں بڑھی تو ہمیں اسے ختم کرنا پڑے گا اور ایسا ہی ہوا بچےکی نشو نما نہیں ہوئی اور زہر پھیلنے کی وجہ سے ڈاکٹر نے بچہ ضائع کر دیا اس سب کے بعد  ہم نے پھر سے اپنے گھر والوں کو منانا شروع کیا  لیکن گھر والوں کے  نہ ماننے کی صورت میں میرے اور میرے شوہر کی آپسی رضامندی سے میرے شوہر نے مجھے علیحدہ گھر لے کر دیا اور میری تمام ضروریات کا خیال رکھا اور ہم دونوں ایک ساتھ رہنا شروع ہو گئے ہمارے گھر والے رضامند نہیں  تھے لیکن وہ اس سب سے واقف تھے پھر جب میرے شوہر یونین کونسل نوٹس رکوانے گئے تو معلوم ہوا کہ ہمارا طلاق کا معاملہ آگے بڑ ھا  ہی نہیں کیونکہ مجھے یونین کونسل کی طرف سے دوسرا اور تیسرا نوٹس  وصول نہیں ہوا تھا اور نہ ہم نے یونین کونسل سے کوئی رابطہ کیا تھا تو اس وجہ سے  ہمارا طلاق کا معاملہ وہیں رک گیا تھا  تو اس وجہ سے طلاق ہوئی ہی نہیں تھی۔ ہمارے والدین  اس سب سے باخبر ہیں اور اب ہم دونوں میاں بیوی ایک ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں  تو براہ کرم اسلامی  قوانین میں کوئی گنجائش نکلتی ہے تو ہم پر رحم کریں اور بتائیں کہ ہم کسی گناہ کے بغیر ایک ساتھ زندگی گذار سکیں۔

نوٹ : شوہر  سے مزید وضاحت کے لیے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ اس لڑائی کے دوران کوئی خلاف عادت کام مثلا توڑ پھوڑ  وغیرہ نہیں کیا اور جو کچھ لکھا ہے اپنے ذہن اور یاد داشت سے لکھا ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب شوہر نے تین دفعہ زبان سے تین طلاقیں دی تھیں تو اسی وقت تینوں طلاقیں واقع ہو چکی تھیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو چکی تھی جس کے بعد رجوع یا صلح کی گنجائش باقی نہیں رہی  تھی ۔ لہذا تین طلاقوں کے بعد میاں بیوی نے جو تعلق رکھا وہ ناجائز تھا لہذا اس پر توبہ اور استغفار کریں اور آپس کا تعلق ختم کریں ۔

توجیہ : ۔ مذکورہ صورت میں شوہر نے اگرچہ غصہ کی حالت میں طلاق دی  تھی  لیکن غصہ کی حالت ایسی نہ تھی  کہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اور نہ ہی غصہ کی وجہ سے اس سے کوئی خلاف عادت قول یا فعل سرزد ہوا ہے ۔ غصہ کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے لہذا مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔نیز طلاق کے واقع ہونے کے لیے طلاق کے نوٹس جاری ہونا

ضروری  نہیں بلکہ صرف زبان سے طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے  لہذا مذکورہ صورت میں یونین کونسل نے طلاق کا معاملہ آگے نہ بھی  چلایا ہو تب بھی زبان سے طلاق دینے کی وجہ سے تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ۔

فتاوی شامی (3/244) میں ہے :

وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اهـ. ملخصا من شرح الغاية الحنبلية، لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال: ويقع الطلاق من غضب خلافا لابن القيم اهـ وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش……………….. والذي يظهر لي أن كلا من المدهوش والغضبان لا يلزم فيه أن يكون بحيث لا يعلم ما يقول بل يكتفى فيه بغلبة الهذيان واختلاط الجد بالهزل كما هو المفتى به في السكران على ما مر،……………… فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك الصحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل

تنویر الابصار(4/443) میں ہے :

صريحه ما لم يستعمل إلا فيه كطلقتك وأنت طالق ومطلقة ويقع بهاواحدة رجعية وإن نوى خلافها أو لم ينو شيئا

فتاوی شامی (4/423) میں ہے :

(والبدعي ثلاث متفرقة )  أو ثنتان بمرة أو مرتين  في طهر واحد (لا رجعة فيه)………… وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى ‌أنه ‌يقع ‌ثلاث

بدائع الصنائع (3/187) میں ہے :

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ‌ثلاثا ‌متفرقا ‌أو ‌جملة ‌واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved