- فتوی نمبر: 29-33
- تاریخ: 16 اپریل 2023
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گاڑی خرید کر کسی کو چلانے کےلیے دے کہ مجھے ماہانہ دس ہزار روپے دیدیا کرو یا روزانہ کاحساب رکھ لے اور باقی کمائی تم رکھ لو اور گاڑی کے تمام اخراجات بھی تم ہی اٹھاؤ تو کیا یہ جائز ہے؟
وضاحت مطلوب ہے :کیا اس طرح گاڑی کسی اور کو دینا کہ تمام اخراجات گاڑی چلانے والا اٹھائے گا اس کا عرف ورواج ہے یا عام طور پر خرچے مالک کے ذمے ہی ہوتے ہیں؟
جواب وضاحت :بڑے خرچے مالک کے ذمے ہوتے ہیں جیسے کہ ہزار سے زیادہ جو خرچے وغیرہ ہوتے ہیں یا کوئی پرزہ تبدیل کرناہو یہ مالک کے ذمے ہوتے ہیں باقی چھوٹے چھوٹے خرچے گاڑی چلانے والا کرتا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت کہ تمام خرچے گاڑی چلانے والا کرے گا جائز نہیں البتہ عرف کے مطابق چھوٹے چھوٹے خرچے اس کے ذمے ہوں تو یہ صورت جائز ہے۔
شامی(9/64) میں ہے:
في الظهيرية: استأجر عبدا أو دابة على أن يكون علفها على المستأجر، ذكر في الكتاب أنه لا يجوز.وقال الفقيه أبو الليث: في الدابة نأخذ بقول المتقدمين، أما في زماننا فالعبد يأكل من مال المستأجر عادة اهـ.قال الحموي: أي فيصح اشتراطه.واعترضه ط بقوله فرق بين الأكل من مال المستأجر بلا شرط ومنه بشرط اهـ.
أقول: المعروف كالمشروط، وبه يشعر كلام الفقيه كما لا يخفى على النبيه، ثم ظاهر كلام الفقيه أنه لو تعورف في الدابة ذلك يجوز تأمل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved