• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

استاد کا طالبعلم کو بُرے القاب سے پُکارنے کا حکم

  • فتوی نمبر: 29-331
  • تاریخ: 02 ستمبر 2023

استفتاء

استاد کاطالب علم کو سبق یاد نہ ہونے پر برے القاب سے پکارنا یا دیگر مواقع پر مثلا مغفل،چغد،اجہل گنوار،کم بخت خبط الحواس،بانر،باولا اور جانوروغیرہ القاب سے پکارنا شرعا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ القاب کے معنی اگرچہ برے ہیں لیکن مذکورہ القاب جب کوئی دوست یا رتبہ میں بلند شخص مثلا ماں باپ یا استاد وغیرہ استعمال کرےتو عرف و عادت میں نہ گالی شمار ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے اپنے معنی مقصود ہوتے ہیں لہٰذا مذکورہ استاد کا طالبعلم کو مذکورہ القاب کے ساتھ پکارنا شرعاً جائز ہے تاہم ان سے بھی احتیاط کی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

فتح الباري لابن حجر (1/ 92)میں ہے۔

قوله ترب جبينه أي قتل لأن القتيل يقع على وجهه ليترب وظاهره الدعاء عليه بذلك ولا يقصد ذلك وكذا قوله ‌تربت ‌يداك أي افتقرت فامتلأت ترابا وقيل المراد ضعف عقلك بجهلك بهذا وقيل افتقرت من العلم وقيل معناه استغنيت يقال هي لغة القبط استعملها العرب واستبعد والراجح أنه شيء يدعم به الكلام تارة للتعجب وتارة للزجر أو التهويل أو الإعجاب وهو كويل أمه ولا أبالك وعقرى حلقي

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (2/ 211)میں ہے۔

قوله تربت يمينك بكسر الراء من ترب الرجل إذا افتقر أي لصق بالتراب وأترب إذا استغنى وهذه الكلمة جارية على ألسنة العرب لا يريدون بها الدعاء على المخاطب ولا وقوع الأمر بها كما يقولون قاتله الله وقيل معناه لله درك وقيل أراد بها المثل ليرى المأمور بذلك الجد وأنه إن خالفه فقد أساء وقال بعضهم هو دعاء على الحقيقة وليس بصحيح وكثيرا ما يرد للعرب ألفاظ ظاهرها الذم وإنما يريدون بها المدح كقولهم لا أب لك ولا أم لك وهوت أمه ولا أرض لك ونحو ذلك قال الهروي ومنه قوله في حديث خزيمة أنعم صباحا تربت يداك فأراد الدعاء له ولم يرد الدعاء عليه والعرب تقول لا أم لك ولا أب لك يريدون لله درك وقال عياض هذا خطاب على عادة العرب في استعمال هذه الألفاظ عند الإنكار للشيء والتأنيس أو الإعجاب أو الاستعظام لا يريدون معناها الأصلي قلت ولذوي الألباب في هذا الباب أن ينظروا إلى اللفظ وقائله فإن كان وليا فهو الولاء وإن خشن وإن كان عدوا فهو البلاء وإن حسن

شرح القسطلانی (9/ 37)میں ہے۔

(ما له) استفهام (ترب) ولأبي ذر عن الحموي والمستملي: تربت (جبينه) أي لا أصاب خيرا فهي دعاء عليه أو هي كلمة تقولها العرب لا يريدون بها ذلك

بذل المجہود (7/582) میں ہے:

(‌تربت ‌يداك) لفظة دعاء عليه، وليس معناه الدعاء.

قال الحافظ: أي لصقتا بالتراب، وهي كناية عن الفقر، وهو خبر بمعنى الدعاء، لكن لا يراد به حقيقته، وقيل: معناه ضعف عقلك، وقيل: افتقرت من العلم، وقيل: فيه تقدير شرط أي وقع لك ذلك إن لم تفعل.

معارف القرآن مفتی شفیع صاحب ؒ(8/117)میں ہے:

تیسری چیز جس سے آیت میں ممانعت کی گئی ہے وہ کسی دوسرے کو برے لقب سے پکارنا ہے جس سے وہ ناراض ہوتا ہو ، جیسے کسی کو لنگڑا لولا یا اندھا کانا کہہ کر پکارنا یا اس لفظ سے اس کا ذکر کرنا اسی طرح جو نام کسی شخص کی تحقیر کے لئے استعمال کیا جاتا ہو اس نام سے اس کو پکارنا ، حضرت ابوجبیرہ انصاری نے فرمایا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لائے تو ہم میں اکثر آدمی ایسے تھے جن کے دو یا تین نام مشہور تھے اور ان میں سے بعض نام ایسے تھے جو لوگوں نے اس کو عار دلانے اور تحقیر و توہین کے لئے مشہور کر دیئے تھے ۔ آپ کو یہ معلوم نہ تھا بعض اوقات وہی برا نام لے کر آپ اس کو خطاب کرتے تو صحابہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ وہ اس نام سے ناراض ہوتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آیت میں تنابزو بالا لقاب سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص نے کوئی گناہ یا برا عمل کیا ہو اور پھر اس سے تائب ہو گیا ہو اس کے بعد اس کو اس برے عمل کے نام سے پکارنا ، مثلاً چور یا زانی یا شرابی وغیرہ جس نے چوری ، زنا ، شراب سے توبہ کرلی ہو اس کو اس پچھلے عمل سے عار دلانا اور تحقیر کرنا حرام ہے ۔ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو ایسے گناہ پر عار دلائے جس سے اس نے توبہ کرلی ہے تو اللہ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ اس کو اسی گناہ میں مبتلا کر کے دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا (قرطبی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved