• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

پرانی مسجد كی تعمير اور مسجد بنانے کا حکم

استفتاء

ايك مسئلہ کے بارے میں آپ کی رہنمائی درکار ہے، مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں پر کن صورتوں میں مسجد بنانا ضروری ہوتا ہے یعنی شریعت میں مسجد بنانا فرض ہے یا واجب ہے یا مستحب ہے یا حالات کے اعتبار سے حکم بدل جاتا ہے۔

وضاحت مطلوب ہے: سوال کا پس منظر کیا ہے؟

جواب وضاحت: مثلاً ایک علاقے میں پچاس کے قریب گھرہیں او ر وہاں پر پہلے سے ایک کچی مسجد موجود ہے لیکن وہ بہت پرانی ہوچکی ہے اور اب اس کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے ، اب سوال یہ ہے کہ(1) اس علاقے والوں پر اس مسجد کی تعمیر کرنے کا کیا حکم ہے(2)اگر وہ اس کی تعمیر نہیں کریں گے تو وہ اس کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے یا نہیں؟(3) اور ویسے بھی شریعت میں مسجد بنانا کن صورتوں میں ضروری ہوتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں مذکورہ مسجد کی تعمیر نو اس علاقے کے مسلمانوں پر فرض یا واجب تو نہیں، تاہم اگر تعمیر نو کی اشد ضرورت ہے تو تعمیر نو باعث اجروثواب ہے۔

2۔ مذکورہ صورت میں تعمیر نو نہ کرنے کی وجہ سےوہ  گناہ گار نہ ہوں گے کیونکہ مذکورہ صورت میں تعمیر نو فرض یا واجب نہیں۔

3۔ کسی بھی شہر یا گاؤں میں اتنی بڑی مسجد کے لیے  کم از کم جگہ وقف کرنا کہ جس میں اس شہر یا گاؤں کے لوگ بآسانی سما سکیں فرض ہے  اور یہ فرض اولاً حکومت پر عائد ہوتا ہے اور اگر حکومت اس فرض کو ادا نہیں کرتی تو اس شہر یا گاؤں والوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے نیز اگر شہر بہت بڑا ہو تو پورے شہر کے مختلف حصوں میں اتنی مساجد کے لیے جگہ وقف کرنا فرض ہے جتنی مساجد میں اس شہر کے لوگ غیر معمولی مشقت کے بغیر نماز باجماعت ادا کرسکیں باقی ہر ہر محلے میں مسجد کا ہونا اچھی بات تو ہے لیکن فرض یا واجب نہیں۔

حاشیہ ابن عابدین مع الدر (3/736) میں ہے:

ووقف مسجد للمسلمين واجب على الإمام من بيت المال وإلا فعلى المسلمين…..(قوله ووقف مسجد) أي في كل بلدة على الظاهر ط (قوله وإلا) أي وإن لم يفعل الإمام فعلى المسلمين

امداد الاحکام (1/449)میں ہے:

سوال:مسجد کا بنوانا فرض ہے یا واجب ہےیا سنت ہے یا مستحب ہے جواب مرحمت فرمائیں؟

الجواب: ہر شہر و قصبہ و گاؤں میں مسجد کے لیے بقدر ضرورت زمین وقف کرنا تو وہاں کے مسلمانوں پر واجب علی الکفایۃ ہے، باقی عمارت بنوانا فرض نہیں بلکہ مستحب ہے۔

قال في الدر ومن نذر نذرا مطلقا من جنسه واجب وهو عبادة مقصودة وجد الشرط لزم الناذر الوفاء به كصوم وصلاة وصدقة ووقف واعتكاف واعتاق رقبة وحج ولو ماشيا فانها عبادات مقصودة ومن جنسها واجب لوجوب العتق في الكفارة الي ان قال ووقف مسجد للمسلمين واجب علي الامام من بيت المال اى في كل بلدة علي الظاهر… وفي حاشيته علي البحر بعد نقل كلام البدائع في عدم صحة النذر ببناء المسجد لكونها قربة غير مقصودة مانصه فهذا صريح في ان الشرط كون المنذور نفسة عبادة مقصودة لا ما كان من جنسه ويدل عليه انهم صححوا النذر بالوقف لان من جنسه واجبا وهو وقف المسجد للمسلمين وقد علمت ان بناء المسجد غير مقصود انتهي… قلت دل علی ان بناء المسجد لیس من  جنسه واجباً والله اعلم..

احسن الفتاویٰ (6/426) میں ہے:

سوال: ایک مسجد تنگ ہے ، اس کے بڑھانے کی سخت  ضرورت ہے ، لوگ بیچارے بہت پریشان  ہیں  مگر مسجد کے ساتھ متصل سرکاری زمین ہے  اور گورنمنٹ مسجد  کو بڑھانے کی اجازت  نہیں دیتی  اس صورت میں بلااجازت مسجد  کو وسیع کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: حکومت پر مساجد  کا انتظام  اور تعمیر بقدر ضرورت  فرض ہے ، معہذا اگر حکومت اپنا یہ فرض ادا نہیں کرتی تو بلا اذن  حکومت زمین پر تعمیر جائز نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

بذل المجہود (3/ 173) میں ہے:

«(باب اتخاذ المساجد) أي: بناؤها (في الدور)

أي: المحلات والقبائل، بضم دال وسكون واو، جمع دار، وكل قبيلة اجتمعت في محلة سميت المحلة دارا، وسمي ساكنوها بها مجازا. وهو اسم جامع للبناء والعرصة والمحلة، ويحتمل كونه إذنا لبناء المسجد في داره يصلي فيه أهل بيته

453 – (حدثنا محمد بن العلاء، ثنا حسين بن علي، عن زائدة) بن قدامة، (عن هشام بن عروة، عن أبيه) عروة بن الزبير، (عن عائشة قالت) أي عائشة: (أمر رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ببناء المسجد في الدور) أي في المحلات والقبائل، أو محمول على اتخاذ بيت في الدار للصلاة كالمسجد يصلي فيه أهل البيت، والأول هو المعول وعليه العمل، ‌والحكمة ‌فيه ‌أنه ‌قد ‌يتعذر على أهل محلة الذهاب للأخرى فيحرمون أجر المسجد وفضل إقامة الجماعة فيه، فأمروا بذلك ليتيسر لأهل كل محلة العبادة في مسجدهم من غير مشقة تلحقهم…..(عن أبيه سمرة) بن جندب (قال) أي سليمان: (إنه) أي سمرة (كتب إلى بنيه: أما بعد ، فإن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – كان يأمرنا بالمساجد أن نصنعها) أي نبنيها (في دورنا) أي في محلاتنا، والظاهر أن الأمر ليس للوجوب، بل كان مبناه على دفع المشقة عنهم إذا مشوا إلى محلة أخرى، فكان معناه كان يأذن لنا (ونصلح صنعتها) أي نحسن بناءها (ونطهرها) من النجاسات والوسخ والنتن….

حاشیہ ابن عابدین (4/ 217) میں ہے:

مطلب في مصارف بيت المال…(قوله وبناء قنطرة وجسر) القنطرة ما بني على الماء للعبور، والجسر بالفتح والكسر ما يعبر به النهر وغيره مبنيا كان أو غيره كما في المغرب ومثله ‌بناء ‌مسجد وحوض، ورباط وكري أنهار عظام غير مملوكة كالنيل وجيحون قهستاني وكذا النفقة على المساجد كما في زكاة الخانية فيدخل فيه الصرف على إقامة شعائرها من وظائف الإمامة والأذان ونحوها بحر»

البحر الرائق  (5/ 127) میں ہے:

«هذا النوع لنحو الكراع والسلاح والعدة للعدو وحفر أنهار العامة وبناء المساجد والنفقة عليها ذكره قاضي خان في فتاويه من كتاب الزكاة فقد أفاد من أن المصالح بناء المساجد والنفقة عليها فيدخل فيه الصرف ‌على ‌إقامة ‌شعائرها من وظائف الإمامة والأذان ونحوهما وفي المحيط أن هذا النوع يصرف إلى أرزاق الولاة وأعوانهم وأرزاق القضاة والمفتين والمحتسبين والمسلمين وكل من تقلد شيئا من أمور المسلمين وإلى ما فيه صلاح المسلمين»

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved