• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ملاوٹی شہد کا حکم

استفتاء

ایک بندہ شہد کا کاروبار کرتا  ہے ،اسے معلوم ہے کہ شہد خراب ہے لیکن اس کے باجود اس نے یہ شہد  بیچا اور اس سے اسی لاکھ کما لیا، اب وہ کہتا ہے کہ میں  نے توبہ کرلی ہے آئندہ ایسا نہیں کروں گا ، اب سوال یہ ہے کہ جو پیسے اس نے کمائے ہیں کیا وہ اس کے لیے حلال ہیں؟

وضاحت مطلوب ہے: شہد خراب ہونے سے کیا مراد ہے؟

جواب وضاحت:خود چینی سے بناتا ہے۔

وضاحت مطلوب ہے: چینی سے بنانے کی کیا صورت ہوتی ہے، شیرے میں ہی ایسنس وغیرہ ڈال کر شہد   بناتا ہے یا اصل شہد میں شیرہ ملا کر مقدار زیادہ  کرتا ہے؟

جواب وضاحت: حضرت ایک تو ہوتا  ہے  شہد کی مکھیوں کو چینی کھلا کر شہد تیار کرنا ایسا نہیں ہے بلکہ اس نے خود کوئی کارنامہ کر کے چینی سے شہد بنایا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شہد کو چینی سے تیار کرنا اور پھر  بتائے بغیر اسی شہد کو بیچنا دھوکا  اور سخت گناہ کا کام ہے البتہ اس بیچنے سے حاصل کردہ مال کے بارے میں  یہ تفصیل ہے کہ جس حد تک خرچہ اس شخص نے کیا ہے اس حد تک وہ پیسہ اس کے لیے حلال ہے باقی کا پیسہ جائز نہیں۔ یہ اصل مالکوں کو واپس کرنا ضروری ہے اگر مالک معلوم نہ ہو تو اس کو صدقہ کرنا ضروری ہوگا۔

الدر المختار مع رد المحتار (5/47) میں ہے:

لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام (قوله؛ لأن الغش حرام) ذكر في البحر أو الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى: إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته، قال الصدر لا نأخذ به. اه. قال في النهر: أي لا نأخذ بكونه يفسق بمجرد هذا؛ لأنه صغيرة. اه قلت: وفيه نظر؛ لأن الغش من أكل أموال الناس بالباطل فكيف يكون صغيرة۔

فتاوی شامی(5/99)میں ہے:

والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه

کفایت المفتی         ( (8/46 ) میں ہے:

سوال :***زعفران بناتا ہے رنگ مزہ اور طبی فوائد کے لحاظ سے اس  میں بھی  وہی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے زبان پر گھلنے  اور رنگ دینے کی وہی کیفیت پید اہوتی ہے جو اصل زعفران کی کیفیت ہے غرضکہ اصلی زعفران سے بھی بہتر ہوجاتا ہے، مگر فروختگی کے وقت  ***اس کی تصریح نہیں کرتا کہ یہ بنا ہوا ہے، بلکہ یہ کہتا ہے کہ یہ اعلیٰ  قسم کا بہترین زعفران ہے، دکاندار اس کو اعلیٰ ہی قسم کے دام پر خریدتے ہیں، استفسار طلب یہ  امر ہے کہ آیا ایسی حالت میں کہ ***اصلی یا نقلی ہونے کی تصریح نہ کرے اور شے معلوم اصلی سے کسی حالت میں  کم بھی نہ ہو، بلکہ صنعت کا ایک بہترین نمونہ ہے اور اصلی سے بھی بعض لحاظ سے بہتر ہے تو کیا اس طریقے پر اس کی بیع و شرا جائز ہے؟  اور  اس کا بنانے والا گناہ گار ہے یا نہیں؟

دوسری صورت یہ ہے کہ اگر اس کو نقلی کرکے ہی بیچا جائے تو جائز ہے یا نہیں؟ تیسری صورت یہ ہے کہ اگر مذکورہ کے ساتھ اصلی مخلوط ہو تو جائز ہے یا نہیں؟

(جواب ۱۶)  زعفران بنانا فی حد ذاتہ جائز ہے اور اس کو فروخت کرنا بھی جائز ہے، لیکن یہ تصریح کردینی لازم ہے کہ یہ زعفران مصنوعی یا نقلی ہے، بغیر تصریح کے فروخت کرنا گناہ ہے اور دھوکا ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں کہ مصنوعی زعفران میں اصلی زعفران بالکل نہ ہو  زعفران کے نام سے فروخت کرنا کھلا ہوا دھوکا ہے …………..“لایحلّ کتمان العیب في مبیع أو ثمن لأنّ الغش حرام.” (درمختار) وفي الحدیث: و إن  کذبا و کتما محقت برکة بیعهما. (بخاری) أي: کتم البائع عیب السلعة والمشتری عیب الثمن.” 

عطر ہدایہ (42)  میں ہے:

مال متقوم و  صناعت   غیرمتقوم  یعنی معصیت  جیسے بت، باجے، کنگوے، ان میں باعتبار مالیت بیع نافذ  اور  عاقدین باعتبار صناعات ممنوعہ  عاصی ہیں اور ثمن بمقابل مالیت واجب الادا و بمقابل  وصف ممنوع  غیر ثابت….

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved