- فتوی نمبر: 30-61
- تاریخ: 13 اکتوبر 2023
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
مفتی صاحب ہم دو آدمی مل کر سعودیہ میں کاروبار کرتے تھے ہمارے کاروبار میں یہ بھی شامل تھا کہ ہم کچھ سکے اپنے پاس رکھتے تھے اور ان سکوں کو زیادہ پیسوں میں بیچتے تھے مثلا کسی نے دس روپے کے سکے لینے ہوں تو ہم اس کو وہ دس سکے پندرہ روپے میں بیچتے تھے ایک عرصہ تک ہم یہ کاروبار کرتے رہے جبکہ ہمیں مسئلہ کا علم نہیں تھا،اب ہمیں یہ بتائیں کہ:
1۔ ہمارا یہ معاملہ سود کے زمرے میں آتا ہے یانہیں؟
2۔اگر سود کے زمرے میں آتا ہے تو اتنا عرصہ جو ہم نے یہ کام کیا اور لوگوں سے اضافی رقم لی اس کی تلافی کیسے ہوسکتی ہے؟
3۔ اس اضافی رقم کی ادائیگی ہم دونوں شریکوں پر کس حساب سے آئیگی؟
تنقیح : سکوں سے مراد وہیں کے رائج سکے ہیں چونکہ وہاں سکوں کی قلت ہوتی ہےاس لیے لوگ انہیں وہیں کی کرنسی کے اعتبار سے مہنگا بیچتے ہیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ معاملہ سود کے زمرے میں آتا ہے۔
توجیہ : ایک ملک کی کرنسی میں باہم تبادلہ کے لیے دونوں طرف برابری ضروری ہے کمی بیشی جائز نہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ حضرات شیخینؒ (امام ابوحنیفہؒ ، امام ابویوسفؒ) کے نزدیک ایک فلس کی دوفلسوں سے بیع جائزہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اس وقت جائز ہے جب ان دونوں کومتعین کر کے ان کا تبادلہ کیا جائے جبکہ ہمارے عرف میں عام طور پر متعین کرکے تبادلہ نہیں کیا جاتا نیز حضرات شیخینؒ کے نزدیک متعین کرکے کمی بیشی کے ساتھ تبادلے کی گنجائش بھی اس وقت ہے جب فلوس کی ثمنیت لوگوں کے عرف کی وجہ سے ہو حکومت کی طرف سے نہ ہو ،مزید یہ کہ اس مسئلے میں فتوی امام محمد رحمہ اللہ کے قول پر ہے۔
2۔ اس اضافی رقم کی تلافی کی صورت یہ ہے کہ اگر وہ لوگ معلوم ہوں جن سے یہ رقم لی تھی تو انہیں واپس کی جائے ، ورنہ ان لوگوں کی طرف سےکسی مستحق زکوۃ کو دیدی جائےنیز اگر یکمشت اتنی رقم واپس کرنا یا صدقہ کرنا ممکن نہ ہو تو تھوڑی تھوڑی بھی کر سکتے ہیں ۔
3۔ دونوں شریکوں پر یہ ادائیگی ان کے فیصدی تناسب سے آئے گی یعنی جس نسبت سے شرکت تھی اسی نسبت سے ادائیگی ذمے میں آئے گی۔
شامی(7/307)میں ہے:
والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه.
شرح الوقایۃ مع عمدۃ الدرایۃ(3/67) میں ہے:
وجاز بيع الفلس بفلسين باعيانهما خلافا لمحمد رحمه الله أن الفلوس أثمان فلا تتعين بالتعيين فصار كما إذا كانا بغير أعيانهما وكبيع الدرهم بالدرهمين ولهما أن ثمنيتهما بالإصطلاح واصطلاح الغير لا يكوب حجة علي المتعاقدين وهما أبطلا ثمنيتهما لأنهما قصدا تصحيح العقد ولا وجه له إلا بتعيينهما وخروجهما عن الثمنية لأنهما إذا خرجا عن الثمنية يكون أعيانهما مطلوبة لا ماليتهما فيمكن أن يعطي فلسين ويأخذ فلسا طلبا لصورته.
قوله:جاز هذا فيما يصير ثمنا بإصطلاح الناس وأما الثمن الأصلي لا يبطل أبدا وأما الذي يروج رواج الثمن بتحكم السلطان كما في عصرنا القرطاس المسمات بالنوت فلا يقدر العرف علي إبطاله ما لم يبطله السلطان أولا يخرج إلي بلد لا رواج فيه أو لم ينعزل السلطان ولم يحكم به السلطان القائم.
كفایت المفتی(8/43)میں ہے:
سلم فی الفلوس روایات فقہیہ کی رو سے جائز ہے۔فلوس کا سدہ میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ۔البتہ نافقہ میں بوجہ بقائے ثمنیت و قصد ثمنیت شبہ ہے۔فقہاء کی دلیل لان الثمنیة تثبت فی حقهما باصطلاهما فتبطل بابطالهمامخدوش ہے۔ ممکن ہے کہ فقہائے کرام کے زمانے میں ایسا ہی ہو، لیکن موجودہ زمانے میں مقدمہ اولی کی صحت غیر مسلم ہے بلکہ الثمنية تثبت بقانون الحکومة ولا ترفع الا بقانون الحکومة۔ اس لیے جواز سلم فی الفلوس النافقہ کا فتوی دینا مشکل ہے۔
فتاوی محمودیہ(16/238) میں ہے:
سوال:ریزگاری کی قلت کی وجہ سے نوٹ کے بارہ آنہ یا چودہ آنہ دینا یا لینا سودی لین دین میں شامل ہے یا نہیں جبکہ قانون ہر دو یعنی نوٹ اور روپیہ کے سولہ آنہ قیمت مقرر ہو کیا حکم شرعی ہے کہ اس کا مرتکب کس گناہ میں شامل ہوگا؟
جواب:نوٹ کے عوض کمی زیادتی جائز نہیں۔
مسائل بہشتی زیور(2/249) میں ہے:
حکومت کی جانب سے مقرر کی ہوئی شرح تبادلہ سے کم و بیش قیمت پر روپوں کے بدلے دوسرے ملکوں کی کرنسی خرید سکتے ہیں۔البتہ ایک ہی ملک کی کرنسی مثلا پاکستانی روپوں کی دو طرف تبادلہ میں برابری ضروری ہے۔
اسلام اور جدید معیشت(ص:131) میں ہے:
ایک ملک کے نوٹوں کی بیع میں تفاضل جائز نہیں تماثل ضروری ہے،اور یہ تماثل نوٹوں کی گنتی سے نہیں ہو گا بلکہ ان پر لکھی ہوئی قیمت Face valueکے مطابق ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved