- فتوی نمبر: 29-301
- تاریخ: 20 اگست 2023
استفتاء
1- ” ضحان ” نام رکھنا کیسا ہے اور اس کا مطلب کیا ہے ؟
2-مریم نام کی بی بی کو ” مجو ” کے نام سے پکارنا کیسا ہے کیا یہ الٹا نام بنتا ہے یا تخلص ؟
3- زینب نام کی عورت کو زینی پکارنے سے یہ اس کا الٹا نام شمار ہوگا یا تخلص ؟ عائشہ نام کو عاشی کہہ کر پکارنے سے یہ اس کا الٹانام شمار ہو گا یا تخلص ؟ رہنمائی فرمائی جائے ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1-” ضحان ” لفظ کا مطلب معلوم نہیں ہو سکا تا ہم یہ نام رکھناجائز ہے کیونکہ نام رکھنے کے لیے مطلب معلوم ہونا اگر چہ بہتر ہے تاہم ضروری نہیں ۔
المحيط البرہانی(5/382) میں ہے :
التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في كتابه ولا ذكره رسوله – صلى الله عليه وسلم – ولا يستعمله المسلمون تكلموا فيه، والأولى أن لا يفعل۔
2-اگر ” مجو ” پیار سے پکارا جاتا ہے اور جس کو پکارا جاتا ہے اس کو یہ نام برا بھی معلوم نہیں ہوتا تو پھر کوئی حرج نہیں البتہ جس کو پکارا جا رہا ہے اس کو برا معلوم ہوتا ہے تو ایسی صورت میں اس نام کے ساتھ پکارنا جائز نہیں ۔نیز اس میں مریم نام کی عورت کی تخصیص نہیں سب کا یہی حکم ہے ۔
معارف القرآن( 8/117)میں آیت ” ولا تنابزوا بالالقاب ” کے ضمن میں ہے:
تیسری چیز جس سے آیت میں ممانعت کی گئی ہے وہ کسی دوسرے کو برے لقب سے پکارنا ہے جس سے وہ ناراض ہوتا ہو ، جیسے کسی کو لنگڑا لولا یا اندھا کانا کہہ کر پکارنا یا اس لفظ سے اس کا ذکر کرنا اسی طرح جو نام کسی شخص کی تحقیر کے لئے استعمال کیا جاتا ہو اس نام سے اس کو پکارنا ، حضرت ابوجبیرہ انصاری نے فرمایا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لائے تو ہم میں اکثر آدمی ایسے تھے جن کے دو یا تین نام مشہور تھے اور ان میں سے بعض نام ایسے تھے جو لوگوں نے اس کو عار دلانے اور تحقیر و توہین کے لئے مشہور کر دیئے تھے ۔ آپ کو یہ معلوم نہ تھا بعض اوقات وہی برا نام لے کر آپ اس کو خطاب کرتے تو صحابہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ وہ اس نام سے ناراض ہوتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔اور حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ آیت میں تنابز بالا لقاب سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص نے کوئی گناہ یا برا عمل کیا ہو اور پھر اس سے تائب ہو گیا ہو اس کے بعد اس کو اس برے عمل کے نام سے پکارنا ، مثلاً چور یا زانی یا شرابی وغیرہ جس نے چوری ، زنا ، شراب سے توبہ کرلی ہو اس کو اس پچھلے عمل سے عار دلانا اور تحقیر کرنا حرام ہے ۔ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو ایسے گناہ پر عار دلائے جس سے اس نے توبہ کرلی ہے تو اللہ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ اس کو اسی گناہ میں مبتلا کر کے دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا ۔
بعض لوگوں کے ایسے نام مشہور ہو جاتے ہیں جو فی نفسہ برے ہیں مگر وہ بغیر اس لفظ کے پہچانا ہی نہیں جاتا تو اس کو اس نام سے ذکر کرنے کی اجازت پر علماء کا اتفاق ہے بشرطیہ ذکر کرنے والے کا قصد اس سے تحقیر و تذلیل کا نہ ہو جیسے بعض محدثین کے نام کے ساتھ اعرج یا احدب مشہور ہے اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صحابی کو جس کے ہاتھ نسبتاً زیادہ طویل تھے ذوالیدین کے نام سے تعبیر فرمایا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مبارک سے دریافت کیا گیا کہ اسانید حدیث میں بعض ناموں کے ساتھ کچھ ایسے القاب آتے ہیں مثلاً حمید الطویل ، سلیمان الاعمش، مروان الاصفر وغیرہ ، تو کیا ان القاب کے ساتھ ذکر کرنا جائز ہے ، آپ نے فرمایا جب تمہارا قصد اس کا عیب بیان کرنے کا نہ ہو بلکہ اس کی پہچان پوری کرنے کا ہو تو جائز ہے ۔
3-یہ صورت نہ نام بگاڑنے کی ہے اور نہ یہ تخلص ہے بلکہ یہ نام کو مختصر کرنا ہے اور لاڈ پیار سے کسی کا نام مختصر کرنا جائز ہے ۔احادیث میں نبی کریم ﷺ کا حضرت عائشہ ؓ کو “عائش ” کہہ کر پکارنا ثابت ہے ۔
مسند احمد( 41/122) میں ہے:
حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” يا عائش، هذا جبريل عليه السلام، يقرأ عليك السلام “، فقالت: وعليه السلام ورحمة الله، قالت: وهو يرى ما لا نرى۔
صحیح بخاری( 1/109) میں ہے:
عن أبي هريرة قال:لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا جنب، فأخذ بيدي، فمشيت معه حتى قعد، فانسللت، فأتيت الرحل، فاغتسلت ثم جئت وهو قاعد، فقال: (أين كنت يا أبا هر). فقلت له، فقال: (سبحان الله يا أبا هر، إن المؤمن لا ينجس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved