• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

Imarat Group Of Companies میں انویسٹمنٹ

استفتاء

میرا تعلق اسلام آباد سے ہے اور میں نے انویسٹمنٹ کے حوالے سے شرعی مسئلہ پوچھنا ہے۔ امارات گروپ آف کمپنی کے نام سے اسلام آباد میں ایک انویسٹمنٹ کی کمپنی ہے  جو مختلف پلازوں کی مالک ہے اور ان پلازوں کے مختلف رقبہ جات کو آگے بیچتی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ رقبہ اس کمپنی کے زیر قبضہ رہے گا اور کمپنی اس کا کرایہ خریدار کو ادا کرے گی آگے  وہ کمپنی بھی یہ پلازے   کسی کو کرائے پر دیتی ہے اور  خریدار اس کا کرایہ وصول کرتا رہے گا حتی کہ وہ اپنے پیسے واپس کرنے کا مطالبہ کرے۔

25 لاکھ کی انویسٹمنٹ پر ہر تین ماہ بعد  تقریباً 125،000 کا نفع، 50 لاکھ پر  250،000 ،اور  75 لاکھ پر 375،000 اور 1 کروڑ روپے کی انویسٹمنٹ پر 500،000 نفع  بصورت کرایہ کی امید دلائی جاتی ہے۔

یہ کمپنی باقاعدہ معاہدہ نامہ لکھ کر دیتی ہے چناچہ  معاہدہ نام لف ہے جس  کی متعلقہ  شقیں ذکر کی جاتی ہیں۔

بیچنے کا معاہدہ :

2.1 ۔ فریق اول (کمپنی) بیچنے پر اور فریق ثانی  (مشتری)  اس بات پر راضی ہے کہ وہ  _____ نوع کا یونٹ، ____ یونٹ نمبر  جو ____ فلور پر____پراجیکٹ کے تحت ، جس کا رقبہ تقریباً____ مربع فٹ ہے كو خرید رہا ہے انہی شرائط و ضوابط کے ساتھ جو معاہدہ میں مذکور ہیں۔

2.2۔ یونٹ کو خریدنے کے لیے جو مکمل اخراجات ہیں، فریق ِ ثانی نے وہ ادا کردیے ہیں اور فریقِ اول نے____ پاکستانی روپے____تاریخ کو وصول کرلیے ہیں۔

2.3۔بکنگ کی ڈیٹ سے فریق ِ ثانی  ماہانہ رینٹ وصول کرے گا جس میں فی مربع فٹ  کے عوض ____ پاکستانی روپے ہوں گے بمطابق اس معاہد ہ کی تفصیلات سیکشن 2۔

2.4 ۔کسی بھی شبہ کو دور کرنے کی غرض سے یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ مکمل اخراجات میں بجلی کا کنکشن، جنریٹر، فائبر آپٹک اور گیس کا خرچہ بھی شامل ہوگا ۔ اگر کوئی مزید سہولت فریقِ ثانی مہیا کرنا چاہے گا تو اس کے اخراجات فریقِ ثانی کے ذمہ ہوں گے اور اس معاہدہ کے مشمولات کے تابع ہوں گے۔

  1. یونٹ کے انتظام سے متعلق

3.1۔ فریقین اس  پر اتفاق کرتے ہیں کہ ____ پراجیکٹ ایک کمرشل پراجیکٹ ہے اور وہ اس پر راضی ہیں:

الف۔ یونٹ کے انتظامات   فریق اول کرے گا لہذا فریق اول ہی کا قبضہ ہوگا۔

ب۔ مقررہ مدت تک فریق ِ ثانی کی طرف سے فریق اول یونٹ کے تمام انتظامات سنبھالے گا اور مدت ختم ہونے کے بعد خود بخود معاہدہ کو دوبارہ اتنی ہی مدت تک کے لیے نیا معاہدہ شمار کرلیا جائے گا۔

ج۔ فریق اول یونٹ کے تمام حقوق پر  کامل اور بلا شرکت غیرے قبضہ  رکھے گا  اور فریقِ ثانی کی جانب سے یونٹ میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوگی۔

د۔ اس پر مزید یہ کہ فریق ِ ثانی ، فریق ِ اول کو مطلقاً اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ فریقِ اول یونٹ کو آگے لیز  یا لائسنس پر دے یا اس کو کسی تیسری پارٹی کو لیز یا لائسنس کے لیے  دے اس مقصد سے کہ وہ تیسری پارٹی اس یونٹ سے آگے اپنی پراڈیکٹ کی تشہیرکرے۔

ح۔ فریقِ ثانی  فریقِ اول کے خلاف  یونٹ پرکرائے  دار رکھنے کے حوالے سے ہر قسم کے دعوی سے دستبردار ہوتی ہے سوائے اس صورت میں کہ کرائے دار کا کام خلاف قانون  یا خلاف شرع ہو۔

  1. عہد اور ضمانتیں

5.1 فریقین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ____ پراجیکٹ  کے  فلور پلان میں ترمیم کرنا یا  (متعلقہ زمین میں)کسی بھی قسم کی چھوٹی یا بڑی تبدیلی کرنے کا صرف اختیار مطلقاً فریق ِ اول کو ہوگا اس شرط کے ساتھ کہ فریقِ اول یونٹ کی لوکیشن نہ بدلے۔

5.2۔فریقِ ثانی  ہر حالت میں فریقِ اول کے بائی لاز (By laws)   کی پابندی کرے گا۔

5.3۔فریقِ ثانی اس معاہدہ کے یا یونٹ کے محض حقوق  کسی تیسری پارٹی کو ٹرانسفر کراسکتا ہے اور یہ اس شرط کے ساتھ  کہ    فریق ِ اول کی طرف سے اس ٹرانسفر کو  اس بات کا سرٹفیکیٹ مل جائے کہ فریقِ اول کو اس ٹرانسفر پر کوئی اعتراض نہیں  NOC))۔

ری فنڈ

6.1 ۔ اس معاہدہ کی مدت کے دوران فریقِ ثانی ری فنڈ کا مطالبہ درخواست دے  کر کرسکتا ہے۔ فریقِ اول اس درخواست پر غور کرکے اس کے بارے میں مندرجہ ذیل  تفصیلات کے مطابق عمل کرے گا۔

الف۔ اگر فریقِ ثانی نے ری فنڈ کا مطالبہ بکنگ ڈیٹ کے بعد   ایک سال کی مدت مکمل ہونے سے قبل کیا تو جس دن فریقِ ثانی کی ری فنڈ کی درخواست قبول ہوئی اس دن تک کا کرایہ فریق ثانی کے ٹوٹل سرمایہ میں سے نکال کر فریقِ ثانی کو اس کا سرمایہ واپس کردیا جائے گا۔

6.2۔ اگر فریقِ ثانی نے ایک سال کی مدت پوری ہونے کے بعد ری فنڈ کا مطالبہ کیا تو فریقِ اول اس بات پر راضی ہے کہ سال  کے بعد جو قیمت میں زیادتی ہوئی  اس کے اضافے کو ملا کر فریق ِ اول دوبار ہ زمین خریدے گا۔

11۔تفویضِ اختیار

فریق ِ اول کو اس بات کا  مکمل اختیار  ہےکہ وہ اس معاہدہ کو مکمل یا جزوی طور پر امارات گروپ آف کمپنی کی کسی دوسری entity کو تفویض یا ٹرانسفر کرسکتا ہے ۔ اس تفویض یا ٹرانسفر کرنے میں جس کو بھی فریقِ اول چاہے گا  فریقِ ثانی کی تحریری اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی خواہ وہ امارات گروپ آف کمپنی کے تحت کوئی دوسریentity   ہو یا کوئی اسی قسم کی پارٹی ہو  ۔فریقِ ثانی اس ایگریمنٹ کو کسی دوسرے کو تفویض کرنے سے فریقِ اول کو روکے گا  نہیں اور جو بھی متعلقہ دستاویز پر کام فریق ِ ثانی کی جانب سے مطلوب ہوگا وہ کرے گا ۔ اس سے متعلقہ جو رجسٹریشن فیس یا سٹام فیس جو معاہدہ سے متعلق ہوگی وہ فریقِ اول ادا کرے گا۔

تنقیح : کمپنی کے نمائندے  سے بات ہوئی جس کے مطابق   کمپنی انویسٹر کو ماہانہ فکس کرایہ دیتی ہے آگے چاہے اس سے زیادہ کرایہ پر وہ جگہ چڑھے یعنی خود کمپنی اس سے کرایہ پر لے کر آگے کرایہ پر دیتی ہے۔ ایسا نہیں کہ کمپنی، انویسٹر کی  وکیل بن کر آگے کرایہ پردے اور سارا کرایہ انویسٹر کو دے  یا اپنا کمیشن رکھ کر باقی کرایہ انویسٹر کو دے۔

نیز کمپنی پرافٹ مختلف صورتوں میں دیتی ہے، اگر تو فریق ثانی ماہانہ کرایہ وصول کرنا چاہتا ہے تو پھر تو سرمایہ کی  واپسی کی یہ صورت ہوتی ہے کہ جس قدر سرمایہ پر زمین خریدی تھی اسی قیمت پر واپسی ہوجائے گی اور اگر کرایہ نہیں لیا تو سالانہ سرمایہ پر بیس سے پچیس فیصد فکسڈ نفع ملتا ہے اور واپسی کی صورت میں سالانہ نفع کو سرمایہ کے ساتھ ملاکر واپس کیا جاتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہماری تحقیق میں مذکورہ کمپنی میں انویسٹ کرنا  اور نفع کمانا شرعاً   جائز نہیں۔

توجیہ:   مذکورہ صورت کی اصل یہ ہے کہ پہلے انویسٹر مذکورہ  کمپنی سے جگہ خریدتا ہے اور پھر واپس اسے ہی کرایہ پر دے دیتا ہے اور جب انویسٹمنٹ ختم ہوگی تو چیز کو واپس اسی قیمت پر فروخت کرتا ہے  لیکن چونکہ نہ تو عملا خریدار کو قبضہ ملتا ہے اور نہ ہی  اسے اپنی خریدی ہوئی چیز میں کسی بھی تصرف کرنے کا اختیار ہوتا ہے جس سے معلوم ہوا کہ شریعت کی نظر میں یہ خریداری ہے ہی نہیں اور اس خریداری کی وجہ سے خریدار کو مالکانہ حقوق حاصل ہوئے ہی  نہیں اور جب شریعت کی نظر میں یہ خریداری ہے ہی نہیں  اور نہ اس خریداری سے خریدار کو مالکانہ حقوق حاصل ہوئے تو اسے کرایہ پر دے کر کرایہ حاصل کرنا بھی جائز نہیں بلکہ یہ محض روپیہ نفع (سود) لینے دینے کا ایک حیلہ ہے۔

اور جس صورت میں سرمایہ کار ماہانہ کرایہ وصول نہیں کرتا بلکہ یکمشت بیس سے پچیس فیصد نفع سالانہ کے ساتھ سرمایہ کو واپس لیتا ہے وہ صورت بھی جائز نہیں کیونکہ یہ صورت مضاربت کی ہوگی اور مضاربت کے جائز ہونے کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ فریقین میں نفع کی تقسیم حقیقی نفع کے ایک متعین فیصدی تناسب سے طے ہو مثلا جو نفع ہوگا اس کا 30 فیصد ایک شریک کو ملے گا، فکس نفع طے کرنا جائز نہیں اور مذکورہ کمپنی میں بیس سے پچیس فیصد تک سالانہ نفع ملتا ہے جو فکسڈ ہوتا ہے لہذا یہ صورت بھی جائز نہیں۔

الدر مع حاشیہ ابن عابدین (7/15) میں ہے:

(وحكمه ثبوت الملك) اي في البدلين  لكل منهما فی بدل، وھذا حکمه الاصلي، والتابع وجوب تسليم المبيع والثمن…

فتح القدیر (6/230) میں ہے:

البیع عبارة عن معني شرعي يظهر في المحل عند الايجاب والقبول حتي يكون العاقد قادرا علي التصرف ليس غير الحكم الذي هو الملك لانه هو الذي يثبت به قدرة التصرف…

شرح المجلہ (المادہ 189)  میں ہے:

فالشرط الفاسد أربعة أنواع:

الأول: ما لم يكن من مقتضيات عقد البيع، أو المتعارف أو المشروع، أو المؤيد لمقتضى العقد، أو ما فيه نفع أو فائدة لأحد العاقدين فالبيع على مثل هذه الشروط فاسد قهستاني، رد المحتار؛ لأن المقصود من البيع إنما هو التمليك والتملك خاصة أي أن يكون المشتري مالكا للمبيع والبائع مالكا للثمن بلا مانع ولا مزاحم. فإذا وقع في البيع شرط نافع لأحد العاقدين كان أحد العاقدين طالبا لهذا الشرط والآخر هاربا منه وأدى ذلك إلى النزاع بينهما فلا يكون العقد تاما……

إذا اشترط المشتري مالا بشرط أن يهبه البائع أو أن يتصدق عليه أو يقرضه مالا معلوما أو أن يبيعه أو يؤجره أو يعيره مالا معينا فالبيع فاسد؛ لأن هذه الشروط فيها نفع لأحد العاقدين كما لو باع إنسان آخر ملكه بشرط أن يسكنه المشتري أو يعوله وينفق عليه إلى أن يموت فالبيع فاسد.

عيون المسائل للسمرقندي (ت 373ھ) (135/1)  میں ہے:

وقال ابویوسف: في رجل اشترى جارية وشرط أن لا يجامعها ولا يستخدمها فالبيع باطل. ولو اشترى على أن يطأها أو يستخدمها فالبيع جائز والشرط باطل. ولو اشترط ‌على ‌أن ‌لا ‌يبيعها أو على أن يبيعها فالبيع باطل

بدائع الصنائع (5/170) میں ہے:

(ومنها) شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة للبائع أو للمشتري أو للمبيع إن كان من بني آدم كالرقيق وليس بملائم للعقد ولا مما جرى به التعامل بين الناس نحو ما إذا باع دارا على أن يسكنها البائع شهرا ثم يسلمها إليه أو أرضا على أن يزرعها سنة أو دابة على أن يركبها شهرا….ونحو ذلك؛ فالبيع في هذا كله فاسد؛ لأن زيادة منفعة مشروطة في البيع تكون ربا لأنها زيادة لا يقابلها عوض في عقد البيع وهو تفسير الربا.

والبيع الذي فيه الربا فاسد أو فيه شبهة الربا، وإنها مفسدة للبيع كحقيقة الربا على ما نقرره إن شاء الله تعالى………

(وأما) فيما سوى الرقيق إذا باع ثوبا على أن لا يبيعه المشتري أو لا يهبه أو دابة ‌على ‌أن ‌لا ‌يبيعها أو يهبها أو طعاما على أن يأكله ولا يبيعه: ذكر في المزارعة ما يدل على جواز البيع فإنه قال: لو شرط أحد المزارعين في المزارعة على أن لا يبيع الآخر نصيبه ولا يهبه فالمزارعة جائزة والشرط باطل، وهكذا روى الحسن في المجرد عن أبي حنيفة – رحمه الله – وفي الإملاء عن أبي يوسف أن البيع بهذا الشرط فاسد.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved