- فتوی نمبر: 30-110
- تاریخ: 20 دسمبر 2023
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
محترم جناب میں راولپنڈی میں ایک وفاقی ادارے میں کام کرتا ہوں۔ ہمیں گورنمنٹ کی جانب سے گھر کرائے پر لینے کے لئے ہائرنگ کی رقم دی جاتی ہے جو کہ ڈائریکٹ مالک مکان کے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی جاتی ہے۔یہ رقم ہر سکیل کے حساب سے مختلف ہے اور اسکی زیادہ سے زیادہ حد فکس ہےاگر ہم اس حد سے زیادہ کا مکان لینا چاہیں تو پھر اضافی رقم ہمیں اپنی جیب سے دینا پڑے گی۔مالک مکان کے ساتھ ہم ایگریمنٹ سائن کرتے ہیں اور گورنمنٹ اس سائن شدہ ایگریمنٹ کے مطابق ہائرنگ کی رقم مالک مکان کو بھیج دیتی ہے۔اب ہم یہ کرتے ہیں کہ ایسا مکان ڈھونڈتے ہیں جسکا کرایہ ہماری ہائرنگ سے کم ہو،فرض کریں کرایہ 20 ہزار ہو اور ہماری ہائرنگ 25 یا 30 ہزار ہو تو مالک مکان سے زبانی طے کر لیا جاتا ہے کہ آپ اپنا کرایہ رکھنے کے بعد اضافی رقم مجھے واپس کر دینا۔مالک مکان اپنی رضا مندی سے اضافی رقم ہمیں دے دیتا ہے۔
(ہمارے پاس یہ آپشن ہوتا ہے کہ ہم ہائرنگ کا ایگریمنٹ کرتے ہوئے کم رقم بھی لکھ سکتے ہیں اور اپنے سکیل کے مطابق پوری رقم بھی لکھ سکتے ہیں۔لیکن اس مہنگائی کے دور میں ہماری یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح کوئی بچت ہو سکے تو ہم کم پیسوں والا مکان لیتے ہیں اور اضافی رقم کی مالک سے بات ہو جاتی ہے۔ہمارے ادارے کی مینجمنٹ کو بھی اس بات کا آئیڈیا ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ رقم ہم بچا لیتے ہیں)
ایک اور بات جو میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ جن ملازمین کے اپنے مکان ہوتے ہیں ان کو بھی "سیلف ہائرنگ” کی مد میں انکے سکیل کے مطابق رقم دی جاتی ہے۔ اور ان سے کہیں پر بھی یہ نہیں پوچھا جاتا کہ دی گئی رقم مکان کے مطابق ہے یا نہیں۔ یعنی کہ اکثر اوقات مکان کے کرایہ کی مارکیٹ ویلیو کم ہوتی ہے مکان ہو سکتا ہے 20000 کا ہو اور کرایہ 30000 ملتا ہے۔اب یہاں سیلف ہائرنگ کے کیس میں تو یہ جائز ہے لیکن کرائے کے مکان کی اضافی رقم کو مالک مکان سے واپس لینا کچھ علماء جائز اور کچھ ناجائز سمجھتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ :
1۔یہ اضافی رقم ہمارے لئے جائز ہے یا کوئی اور جائز آپشن ہو سکتا ہے(جیسے بلز وغیرہ کی مد میں)؟
2۔اگرہمارے اپنے لئے ناجائز ہے تو کسی اور کی بغیر ثواب کی نیت سے مدد کر دی جائے تو کیسا ہے؟
وضاحت مطلوب ہے : 1۔سیلف ہائرنگ میں ادارے کی طرف سے ضابطہ کیا ہے کیا اس میں بھی مدار مکان پر ہوتا ہے کہ اگر مطلوبہ معیار کا ہوگا تو پورا کرایہ ملے گا ورنہ کم ملے گا؟ اور اگر ضابطہ طے ہے تو پھر لوگ اس معیار سے کم ہونے کی صورت میں پورا کرایہ کیسے لیتے ہیں؟2۔ سیلف ہائرنگ میں پورا کرایہ لینے کی صورت کے جائز ہونے کی جو بات آپ نے ذکر کی ہے وہ کہیں سے فتوی لیا ہے اگر لیا ہے تو وہ بھیج دیں۔
جواب وضاحت: 1۔ ہائرنگ کی دونوں صورتوں میں ایک ہی شرط ہے اگر مکان کا رقبہ دی گئی شرط سے کم ہو تو پوری ہائرنگ نہیں ملتی۔(زیادہ رقبہ ہونے پر ادارے کو کوئی اعتراض نہیں۔کرایہ ہمارے سکیل کے مطابق ہی ملے گا۔)
جو بات میں نے ذکر کی ہے کہ اکثر اوقات سیلف ہائرنگ کے کیس میں ملنے والا کرایہ مکان کی مارکیٹ ویلیو سے زیادہ ہی ہوتا ہے اس میں رقبہ کا کوئی مسئلہ نہیں۔رقبے والی شرط تو پوری ہو رہی ہوتی ہے۔ اصل چیز اس میں مکان کی مارکیٹ ویلیو ہونی چاہیے۔ جبکہ ادارہ کی طرف سے مکان کا (Minimum Covered Area )دیکھا جاتا ہے۔اور سکیل کے مطابق رقم ٹرانسفر کر دی جاتی ہے۔مکان اگر ہمارا اپنا ہے پھر تو سیدھا سیدھا ساری رقم ہمیں مل جائے گی۔اور اگر مکان کرائے پر ہے تو ہم چھوٹا مکان لے کر بچت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (اور یہ بچت کرنا ہی میرا اصل سوال ہے)
2۔ اسکے لیے فتوی تو کوئی نہیں۔بس ادارہ اپنے قانون کے مطابق ٹرانسفر کر دیتا ہے۔ سیلف ہائرنگ والے سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آپ کے مکان کا کتنا کرایہ بنتا ہے بلکہ یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی سکیل کے مطابق کتنی ہائرنگ بنتی ہے۔
فرق دونوں میں یہ ہے کہ سیلف ہائرنگ میں ساری رقم مجھے ملے گی اور کسی کا مکان ہائر کروانے پر ساری رقم مالک مکان کو ملے گی۔اور مالک مکان اضافی رقم مجھے دے دے گا۔
تنقیح : بندہ نے ایک سرکاری افسر سے اس بارے میں رابطہ کیا تھا ان کے مطابق کرایہ پر لینے کی صورت میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر مکان مطلوبہ شرائط کے مطابق نہ ہو تو کرایہ کم ملتا ہے اور اس بارے میں اصل شرط کورڈ ایریا ( تعمیر شدہ رقبہ) کی ہے اور اگر وہ پوری ہو پھر چاہے حقیقتا کرایہ کم طے ہوا ہو تب بھی پورا کرایہ مل جاتا ہے اسی طرح سیلف ہائرنگ کی صورت میں بھی یہی ہے کہ اگر شرائط کے مطابق کورڈ ایریا نہ ہو تو کم ملتا ہے اور شرائط کے مطابق پورا ہونے کی صورت میں پورا ملتا ہے ۔[رابطہ کنندہ: حسیب احمد]
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت جائز نہیں کیونکہ اس میں جھوٹ اور دھوکہ ہے نیز سیلف ہائرنگ میں بھی اگر تعمیر شدہ رقبہ (کورڈ ایریا) پورا ہو تو مکمل کرایہ لینا جائز ہے اور اگر اس میں بھی جھوٹ اور غلط بیانی کی جائے تو یہ صورت بھی ناجائز ہے۔
2۔ یہ صورت بھی جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں جھوٹ کا گناہ پھر بھی ہوگا نیز ناجائز مال کا اصل مالک معلوم ہونے کی صورت میں اصل مالک کو رقم واپس کرنا ضروری ہے صدقہ کرنا جائز نہیں ، البتہ مذکورہ صورت میں اگر کوئی دھوکہ دہی نہ ہو جیسا کہ ہماری معلومات کے مطابق کرایہ کے مکان میں بھی اگر کورڈ ایریا سکیل کے حساب سے شرط کے مطابق ہو تو پورا کرایہ ہی ملتا ہے چاہے حقیقتا کرایہ کم طے ہوا ہو تو اس طریقہ سے کوئی شخص کرایہ بچائے تو یہ صورت جائز ہے اور اگر دھوکہ دہی اور جھوٹ کی صورت ہو جیسا کے سوال میں ذکر ہے تو یہ صورت جائز نہیں ، نیز سیلف ہائرنگ میں بھی یہی اصول ہے کہ اگر وہ جھوٹ بول کر زائد پیسے لیتے ہیں تو وہ بھی جائز نہیں ورنہ جائز ہے۔
شامی (6/385) میں ہے:
صرح الفقهاء بان من اكتسب مالا بغير حق فاما ان يكون كسبه بعقد كالبيوع الفاسدة والاستئجار على المعاصى والطاعات او بغير عقد كالسرقة والغصب والخيانة والغلول ففى جميع الاحوال المال الحاصل له حرام عليه
شامی(7/307)میں ہے:
والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved