• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نادعلی ،درود تاج،علم جفرکے نقش پر مشتمل تعویذ کا حکم

استفتاء

جادو اور جنات کے شَر سے بچنے کے لیے ایک تعویذ ہے جس میں سورۂ یٰسین، آیت الکرسی،درود ابراہیمی، چار قل، لوح محفوظ وسعت ِ رزق اور خیر وبرکت کا عظیم نقش، علم جفر کے اہم نقش، نادِ علی کبیر ونادِ علی صغیر، حرز امام جوادؑ، درود تاج، حرز امام رضاؑ شامل ہیں۔کیا اس تعویذ کا استعمال جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ تعویذ کا استعمال جائز نہیں ہے۔

توجیہ: اس تعویذ میں قرآنی آیات کے علاوہ کچھ چیزیں ایسی ہیں  جن کا  استعمال متعدد شرعی خرابیوں کی وجہ سے جائز نہیں جیسے:

(1)ناد علی جس کے مشہور الفاظ یہ ہیں:

ناد عليا وليا مظهر العجائب                           تجده عونا لك في النوائب

كل هم وغم سينجلى بنبوتك        يا محمد                   وبولايتك يا على يا على يا على

اس میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو مدد کے لیے پُکارا گیا ہے حالانکہ کسی فوت شدہ کو مدد کے لیے پکارنا شرک میں داخل ہے اور شرعاً ناجائز ہے۔

(2)اسی طرح علم جفر کے اہم نقش بھی اس میں شامل ہیں جس کو فقہاء نے حرام لکھا ہے۔

(3)لوح محفوظ: اس نام سے کوئی دعا  یا تعویذ شریعت میں نہیں اور  نہ ہی اس نام کی کوئی دعا معروف ہے اور یہاں اس کے الفاظ بھی درج نہیں، لہٰذا جب تک کسی تعویذ کے الفاظ معلوم نہ ہوں اس وقت تک اس کا استعمال درست نہیں۔

(4) درود تاج: یہ درود شریف کسی حدیث میں وارد نہیں ہے جبکہ اس میں موہمِ  شرک کلمات موجود  ہیں ۔ اس ليے اس كا استعمال  بھی جائز نہیں۔

(5)حرز امام رضا:یہ دعا امام رضاؒ کی طرف منسوب  کی جاتی ہے۔ اس  کی عبارت میں یہ الفاظ بھی ہیں:

سترت بينى وبينك بستر النبوة الذى استتر به انبياء الله من سطوات الجبابرة والفراعنة. جبرئيل عن يميني وميكائيل عن يساري واسرافيل عن ورائي ومحمد صلى الله عليه وسلم وآله أمامي.

یہ الفاظ بھی موہمِ شرک ہیں اس  لیے اس  حرز کا استعمال  بھی شرعاً ناجائز ہے۔

(1)عملیات وتعویذات کے شرعی احکام  از افادات  حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ(96) میں ہے:

یاد رکھو نادِ علی کا مضمون بھی شرک ہے۔ اسے چھوڑنا چاہیے اس لیے کہ وہ مضمون یہ ہے:

ناد عليا مظهر العجائب                       تجده عونا لك في النوائب

كل هم وغم سينجلى يا محمد بنبوتك                  وبولايتك يا على يا على يا على

بعضے سنی بھی اسے بڑے شوق سے گلے میں ڈالتے ہیں، سو یہ جائز نہیں ہے۔

فتاویٰ محمودیہ (20/92) میں ہے:

نادِ علی کا وظیفہ پڑھنا غلط ہے، خلاف شرع ہے اس کو ہرگز نہ پڑھا جائے۔

(2) احسن الفتاوی 8/231 میں ہے :

تعريف علم الجفر والجامعة …….

حكمه : حكمه حكم علم الرمل لانهما متحدان في الغرض فهو حرام مثله .

قال العلامه ابن عابدين رحمه الله تعالى في حكم الرمل :وقد علمت انه حرام قطعا واصله لادريس عليه السلام اي فهو شريعة منسوخة وفي فتاوى ابن حجر ان تعلمه وتعليمه حرام شديدا التحريم لما فيه من ايهام العوام ان فاعله يشارك الله تعالى في غيبه.

(3)ردالمحتار (9/600) میں ہے:

وفي المغرب وبعضهم يتوهم ‌أن ‌المعاذات هي التمائم وليس كذلك إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال رقاه الراقي رقيا ورقية إذا عوذه ونفث في عوذته قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به.

(4)فتاویٰ رشیدیہ (ص:150) میں ہے:

آنچہ فضائل درود تاج کہ بعض جہلہ بیان  کنندغلط است وقدر آں بجز بیان شارع علیہ السلام معلوم شدن محال  وتالیف ایں درود بعد مرور صدہا سال واقع شد پس چگونہ ورد ایں صیغہ را موجب ثواب قراردادہ شود وآں چہ در احادیث صحاح صیغہائے درود وارد شدہ آں ترک کردن وایں را موعود بثواب جزیل پنداشتن وورد ساختن بدعت ضلالت ہست وچوں آنکہ درآں کلمات شرکیہ مذکور اند اندیشہ خرابی عقیدہ عوام است لہٰذا وردآں ممنوع  ہست پس تعلیم درود تاج ہمانا سم قاتل بعوام سپردن است کہ صدہا مردم بفساد عقیدہ شرکیہ مبتلا شوند و موجب ہلاکت ایشاں  گردد۔ فقط

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved