• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

صفر اور محرم کے مہینے کے اندر نحوست سمجھنا جائز نہیں

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص  محرم یا صفر کے مہینے میں اپنا گھر چھوڑ کر کسی دوسرے شہر منتقل ہونا چاہتا ہے لیکن لوگ اس کو اس سے روکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے ان دو ماہ میں ایسا کرنے سے نحوست ہوتی ہے۔ کیا نقل مکانی  سے بدفال لینا جائز ہے؟ اور شریعت میں اس مسئلہ کی کیا حیثیت ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

صفر  یا محرم  کے مہینے میں ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہوجانا  جائز ہے اور شریعت میں اس کے ناجائز ہونے  کی کوئی دلیل نہیں ہے  اور ان دو مہینوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے  میں بد شگونی اور نحوست سمجھنا  ناجائز اور دورجاہلیت کی خرافات میں سے  ہے ،اسلام     نے  چیزوں  کے اندرنحوست کی   اور بالخصوص  صفر کے مہینے میں نحوست کی نفی  کی ہے  ۔

روح البيان (3/428) میں ہے:

قال فى عقد الدرر واللآلى وكثير من الجهال ‌يتشاءم من صفر وربما ينهى عن السفر والتشاؤم بصفر هو من جنس الطيرة المنهي عنها وكذا التشاؤم بيوم من الأيام كيوم الأربعاء وايام العجائز فى آخر الشتاء وكذا تشاؤم اهل الجاهلية بشوال فى النكاح فيه خاصة

مرقاۃ المفاتیح  (7/2894)  میں ہے:

(ولا صفر) قال شارح: ‌كانت ‌العرب يزعمون أنه حية في البطن، واللدغ الذي يجده الإنسان عند جوعه من عضه. قال أبو داود في سننه، قال بقية: سألت محمد بن راشد عنه؟ قال: كانوا يتشاءمون بدخول صفر، فقال النبي – صلى الله عليه وسلم: ” «لا صفر» “

مرقاۃ المفاتیح  (7/2894)  میں ہے:

قال القاضي: ويحتمل ‌أن ‌يكون ‌نفيا لما يتوهم أن شهر صفر تكثر فيه الدواهي والفتن

عمدۃ  القاری  شرح صحیح البخاری (9/200) میں ہے:

وقيل: إن العرب كانوا يزيدون في كل أربع سنين شهرا يسمونه صفرا الثاني، فتكون السنة ثلاثة عشر شهرا، ولذلك قال صلى الله عليه وسلم: (السنة اثني عشر شهرا) وكانوا ‌يتطيرون به ويقولون: (إن الأمور فيه منغلقة، والآفات فيه واقعة

فتاوی عالمگیری(5/380) میں ہے:

سألته في جماعة ‌لا ‌يسافرون في صفر ولا يبدؤن بالأعمال فيه من النكاح والدخول ويتمسكون بما روي عن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – «من بشرني بخروج صفر بشرته بالجنة» هل يصح هذا الخبر؟ وهل فيه نحوسة ونهي عن العمل؟ وكذا ‌لا ‌يسافرون إذا كان القمر في برج العقرب وكذا لا يخيطون الثياب ولا يقطعونهم إذا كان القمر في برج الأسد هل الأمر كما زعموا قال أما ما يقولون في حق صفر فذلك شيء كانت العرب يقولونه وأما ما يقولون في القمر في العقرب أو في الأسد فإنه شيء يذكره أهل النجوم لتنفيذ مقالتهم ينسبون إلى النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – وهو كذب محض كذا في جواهر الفتاوى.

تفسیر روح المعانی (15/131) میں ہے:

 اذ الأيام كلها لله تعالى لا تنفع ولا تضر بذاتها.

فتاویٰ رحیمیہ (2/115) میں ہے:

سوال: ہمارے یہاں  ماہ محرم میں  شادی کرنے کو ناجائز کہتے ہیں  اور اس کو ماتم اور سوگ کا مہینہ کہتے ہیں ۔ کیا یہ درست ہے یا نہیں  ؟

جواب: ماہ مبارک محرم میں  شادی وغیرہ کرنا مبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے ۔ اسلام نے جن چیزوں  کو حلال اور جائز قرار دیا ہو ۔ اعتقاداً یا عملاً ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں  ایمان کا خطرہ ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ روافض اور شیعہ سے پوری احتیاط برتیں  ۔ ان کی رسومات سے علیٰحدہ رہیں  ۔ ان میں  شرکت حرام ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved