• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وراثت اور وصیت کی ایک صورت

استفتاء

میری خالہ مرحومہ****کا کچھ دن پہلے انتقال ہوا، انکی اپنے خاوند سے پچھلے پچاس سال سے علیحدگی تھی، خالہ کے والد(سائل کے نانا)  قادر*** نے دو شادیاں کی تھیں، ایک زوجہ سے دو بیٹے (*** مرحوم اور *** مرحوم) تھے اور دوسری زوجہ(صاحب خاتون) سے دو بیٹیاں ایک میری والدہ (** مرحومہ) اور دوسری بیٹی میری یہ خالہ (**مرحومہ) تھی۔**ش مرحوم نے اپنے حلفیہ بیان میں اسٹامپ پیپر میں یہ بات لکھی کہ "میری زندگی کے بعد میرے لڑکوں اور لڑکیوں کا کوئی حق اس مکان میں نہ ہوگا۔ اس مکان کی واحد مالک میری موجودہ زوجہ صاحب خاتون ہے اور ہوگی اس کو فروخت کردے یا اپنی مرضی سے کسی کو دیدے، اس کا اختیار ہوگا” پھر صاحب خاتون نے یہ مکان قانونی طریقہ سے بذریعہ سٹام پیپر اپنی بیٹی ** جو میری خالہ ہے، کو دے دیا۔ خالہ اپنی والدہ مرحومہ صاحب خاتون کی طرف سے ملے  ہوئے مکان میں رہتی تھی اور آخر عمر تک اس مکان میں رہی، خالہ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ انتقال سے کچھ دن پہلے ہمارے گھر تشریف لائیں اور اپنی ساری جائیداد اور مال کی مجھے اور میرے دو بیٹوں کو دینے کی وصیت کی۔ اب میری خالہ کا انتقال ہوگیا ہے، اسکے سوتیلے دونوں بھائیوں کا بھی ان سے پہلے انتقال ہوچکاہے، سوتیلے بھائی ** کا ایک بیٹا ناتھو اور ایک بیٹی**ہے۔اور دوسرے سوتیلے بھائی ہارون کا ایک بیٹا شاکر اور بیٹی شبانہ موجود ہے۔اب سوتیلے بھائیوں کی مذکورہ اولادیں بھی اس مکان میں حصہ کی دعویدار ہیں۔ آپ صحیح رہنمائی فرمائیں کہ:

1۔ خالہ نے جوہمارے لیےوصیت کی تھی اس کا کیا حکم ہے؟

2۔ کیا سوتیلے بھائیوں کی اولادوں کا اس مکان میں حصہ بنتا ہے؟اور مکان کی شرعی ورثاء میں تقسیم کس طرح ہوگی؟

وضاحت مطلوب ہے کہ: (1) **نے جس اسٹام پیپر کے ذریعے اپنی بیوی صاحب خاتون کو مذکورہ مکان دیا تھا اور صاحب خاتون نے جس اسٹام پیپر کے ذریعے آپ کی خالہ کلثوم  مرحومہ کو مذکورہ مکان دیا تھا ان دونوں کی کاپی مہیا کی جائے۔ (2)** صاحبہ نے جو وصیت کی اس کے الفاظ کیا تھے؟ اور اس کے گواہ کون ہیں ؟ (3) کیا**صاحبہ کے خاوند حیات ہیں؟ اگر حیات ہیں تو کیا انہوں نے طلاق دے دی تھی یا ویسے ہی علیحدگی کی تھی؟

جوابِ وضاحت: (1) دونوں کی تصاویر ارسال کردی ہیں(ساتھ لف ہیں)۔(2)** صاحبہ نے ان الفاظ کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں اپنے مکان کی وصیت کی ’’میں اپنے پورے ہوش و حواس میں کہتی ہوں کہ میرے مرنے کے بعد یہ مکان میری بھانجی روما اور اسکے دونوں بیٹوں داؤد اور فرمان کا ہوگا کسی اور کا اس میں کوئی حق نہیں‘‘ دو گواہ بھی موجود ہیں۔ (3) ** صاحبہ کے خاوند حیات ہیں علیحدگی تھی طلاق نہیں ہوئی تھی۔

مزید وضاحت مطلوب ہے کہ: ’’دو گواہ بھی موجود ہیں‘‘ ان دو گواہوں کا حلفی بیان دستخط اور انگوٹھے کے ساتھ تصویر بنا کر بھیجیں۔

جواب وضاحت: جی گواہ ابھی قریب موجود نہیں۔آپ باقی مسئلہ حل کردیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں**مرحومہ کے شرعی ورثاء شوہر اور مرحومہ کے سوتیلے بھائیوں کے بیٹے ہیں۔ لہذا** مرحومہ نے آپ کے لیے جو وصیت کی ہے اگر آپ کے پاس اس کے گواہ موجود ہوں یا ورثاء اس وصیت کو مانتے ہوں تو اس مکان میں ایک تہائی 3/1 آپ کا ہے جو آپ تینوں میں برابر تقسیم ہوگا کیونکہ ایک تہائی سے زیادہ میں وصیت نافذ نہیں ہوتی اور باقی دو حصے ورثاء کے ہوں گے وہ اپنی خوشی سے آپ کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کے پاس گواہ نہ ہوں اور ورثاء بھی اس وصیت کو نہ مانتے ہوں تو یہ وصیت ثابت نہ ہوگی اور سارا مکان ورثاء میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا۔

2۔ مذکورہ صورت میں** مرحومہ کے سوتیلے بھائیوں کے بیٹوں کا** مرحومہ کی وراثت میں حصہ بنتا ہے لہذا ورثاء میں مکان کی تقسیم کی صورت یہ ہوگی کہ مکان کے 4حصے کیے جائیں گے جن میں سے مرحومہ کے شوہر کو دو حصے (50فیصد) ملیں گے اور سوتیلے بھائیوں کے دو بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو ایک حصہ (25 فیصد فی کس)ملے گا۔

در مختار (8/202) میں ہے:

(و) نصابها (‌لغيرها ‌من ‌الحقوق سواء كان) الحق (مالا أو غيره كنكاح وطلاق ووكالة ووصية واستهلال صبي) ولو (للارث رجلان) إلا في حوادث صبيان المكتب فإنه يقبل فيها شهادة المعلم منفردا .قهستاني عن التجنيس (أو رجل وامرأتان)…..

فتاویٰ خلیلیہ (164) میں ہے:

’’** کا بحالت صحت یہ کہنا کہ میری کل جائداد  منقولہ و غیر منقولہ کا مالک** ہے، یہ ہبہ ہے‘‘

فتاویٰ عالمگیری (6/94) میں ہے:

وإذا قال: ‌عبدي ‌هذا ‌لفلان وداري هذه لفلان، ولم يقل: وصية ولا كان في ذكر وصية، ولا قال: بعد موتي – كان هبة قياسا واستحسانا.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved