• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

(1) حمل کی وراثت (2) زندگی میں فوت ہونے والے ورثاء کا حصہ

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ ملوک خان نے دو شادیاں کیں اور ان کی ٹوٹل اولاد 18 بیٹے بیٹیاں ہوئے، جن کی مکمل تفصیل یہ ہے کہ ملوک خان کی پہلی زوجہ سے 5 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہوئیں، پھر اس زوجہ کا انتقال ہو گیا اور اس کے انتقال کے تقریباً سات سے آٹھ سال بعد ملوک خان نے دوسری شادی کی، دوسری زوجہ سے ان کے 4 بیٹے اور 5 بیٹیاں ہوئیں، جن میں سے چو تھا بیٹا ملوک خان کےانتقال کے تقریباً دو سے چار ماہ بعد ہوا۔ملوک خان نے اپنی زمین کےنو حصےکر کے ان میں سے 8 بیٹوں میں 8 حصے تقسیم کر کے انہیں قبضہ بھی دے دیا (قبضے کی تفصیل یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زمین پر نشانات وغیرہ لگا کر ہر بیٹے کے لیے جگہ متعین کر دی اور انہیں قبضہ وتصرف بھی دے دیا، بالغ بچوں نے خود قبضہ کر کے تصرفات شروع کر دیئے، جبکہ نابالغ بچوں کی طرف سے ملوک خان نے ان کے لیے قبضہ کر لیا اور سب کو بتا دیا کہ یہ زمین اگر چہ میرے پاس ہے، لیکن یہ میرے فلاں نا بالغ بچے کی ہے) اور زمین کا نواں حصہ اپنے پاس رکھ لیا تا کہ اپنا گزر بسر ہوتا رہے اسی دوران پہلی زوجہ سے ایک بیٹے اوردوسری زوجہ سے ایک بیٹے کا انتقال ہو گیا، یعنی ملوک خان کی زندگی میں ہی ان کے دو بیٹوں کا انتقال ہو گیا تھا، اسی طرح ملوک خان کے انتقال کے وقت ان کے والدین اور آباء و اجداد میں سے بھی کوئی حیات نہیں تھا۔ تو جب ملوک خان کا انتقال ہوا، تو ان کے ورثاء میں 1 زوجہ ، 6 بیٹے اور 9 بیٹیاں موجود تھیں اور پھر تقریباً دوماہ سے چار ماہ بعد اس کی بیوہ نے ایک بیٹے کو جنم دیا، تو یوں اس بیٹے کو ملا کر ملوک خان کے انتقال کے بعد اس کی اولاد میں 7 بیٹے اور 9 بیٹیاں موجود ہیں۔

اس تفصیل کے مطابق درج ذیل سوالات کا شرعی حل مطلوب ہے:

(1) ملوک خان کی جو زوجہ اس کی حیات میں ہی فوت ہو گئی تھیں نیز اس طرح ان کے دو بیٹے جو ان کی حیات میں فوت ہوئے، کیا ان کے لیے بھی ملوک خان کی وراثت میں سے حصہ ہوگا کہ جو ان کے بعد والوں کو دیا جائے یا پھر ان کا حصہ نہیں ہوگا؟

(2)  ملوک خان کے انتقال کے بعد ان  کا جو بیٹا پیدا ہوا کیا اسے ملوک خان کی وراثت میں سے حصہ ملے گا؟

(3)  ملوک خان نے اپنی زندگی میں جو آٹھ حصے اپنے بیٹوں کو دے دئیے تھے،کیا ان میں بھی ملوک خان کی وراثت جاری ہوگی یا نواں حصہ جو انہوں نے اپنے لیے چھوڑا تھا فقط اس میں اور ان کی مملوکہ دیگر اشیاء میں وراثت جاری ہوگی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)جو ورثاء مرحوم کی زندگی میں انتقال کر گئے( مرحوم کی زوجہ اور دو بیٹے ) ان کو  یا ان کے بعد والوں (ّیعنی  ان کے بیوی بچوں) کو مرحوم کی وراثت سے حصہ نہیں ملے گا ۔

(2) مرحوم کے انتقال کے دو ماہ بعد جو بچہ پیدا ہوا اس کو وراثت میں سے حصہ ملے گا ۔

(3) مرحوم نے اپنی زندگی میں جو آٹھ حصے بیٹوں کو دیے  تھے ان میں وراثت جاری نہ ہو گی ۔

نوٹ: زندگی میں اولاد کو جوچیز دی جائے وہ ہدیہ ہے اور اولاد کو ہدیہ دینے میں  یہ تفصیل ہے کہ لڑکے لڑکیوں کو برابر حصہ دیا جائے یا لڑکوں کو دو، دو حصے اور لڑکیوں کو ایک، ایک حصہ دیا جائے۔ عام حالات میں اس سے کم دینا جائز نہیں۔ مذکورہ صورت میں چونکہ مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنے لڑکوں میں تو جائیداد تقسیم کی ہے اور لڑکیوں کو کچھ نہیں دیا لہٰذا ایسا کرنے کی اگر کوئی خاص وجہ نہیں تو مرحوم  لڑکیوں کو جائیداد میں سے کچھ نہ دینے کی وجہ سے گناہ گار ہوا ہے اب اگر مرحوم کے لڑکے یہ چاہتے ہیں کہ ان کے والد کے ذمے گناہ نہ رہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ  یہ لڑکے اپنے آٹھ حصوں میں سے یا اپنے پاس سے اپنے حصوں کے برابر یا اپنے حصوں سے آدھا لڑکیوں کو دےدلا کر راضی کرلیں۔

فتاوی شامی (6/728)میں ہے :

وشروطه ثلاث ……..وجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو حكما كالحمل.

البحر الرائق (8/574) ميں  ہے:

قال – رحمه الله – (ووقف للابن حظ ابن) أي إذا ترك الميت امرأته حاملا أو غيرها ممن يرثه ولدها وقف للحمل نصيب ابن واحد وهذا قول أبي يوسف وعنه يوقف نصيب ابنين وهو قول محمد؛ لأن ولادة الاثنين معتادة، وعن أبي حنيفة أنه يوقف نصيب أربع بنين أو أربع بنات أيهما أكثر؛ لأنه يتصور ولادة أربعة في بطن واحدة فيترك نصيبها احتياطا والفتوى على الأول؛ لأن ولادة الواحد هي الغالب والأكثر منه موهوم۔

فتاوی عالمگیری (4/391)میں ہے:

ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد ‌تفضيل ‌البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved