• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

(1) فوج کی طرف سے ملنے والے مختلف فنڈز کی وراثت(2) بچی کی پرورش کا حق

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ*** کو دوران سروس انتقال ہوچکاہے۔ ورثاء میں ایک بیوہ **، ایک بیٹی**، والده **۔ پانچ بھائی جن میں سے تین شادی شدہ  (*******) صاحب** مرحوم کی حیات میں ہی فوت ہوچکے ہیں۔

مسمی شکیل خان فوج میں ملازم تھے اور فوج کے قانون کے مطابق  شیٹ رول پر سنل ڈاکو منٹس میں مرحوم کی (NOK) انکی زوجہ ہے ۔ مسمی شکیل خان کے انتقال کے بعد محکمہ کی طرف سے مختلف فنڈز / پنشن بیوه بی بی راجہ اور بیٹی (ستاره) شکیل کے نام پر کراس چیک اور ان کے اکاؤنٹ میں آچکے ہیں۔ اور یہ فنڈزتقریباً 60 لاکھ روپے پر مشتمل ہیں ۔ جن کی تفصیل سوالوں کے ساتھ منسلک کاغذات میں موجود ہیں۔

1۔ مرحوم کی پنشن اور مجوزہ فنڈز میں سے مرحوم کی بیوہ کے علاوہ انکی والدہ اور بہن بھائیوں کا شرعی طور پر کوئی  حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اگر بنتا ہے تو اسکو مذکورہ ورثاء کے درمیان شرعاً کیسے تقسیم کیا جائے گا؟

2۔مرحوم کی ایک بیٹی (ستاره شکیل )جن کی عمر آٹھ سال ہے۔ اور اپنی والدہ( بی بی راجہ) کے زیر کفالت ہے۔ اور دونوں (ماں، بیٹی) اپنے نانا کے گھر رہتی ہیں۔ اس سلسلے میں محترم سینئرسول جج نے انکی پراپرٹی، جائیداد، تحفے تحائف کی Guardian(نگران) کے لیے تحریری حکم نامہ ۱۳ فروری ۲۰۲۳ ء کو جاری کر دیا تھا کہ بچی کی پرورش کی ذمہ داری سن بلوغت تک بچی کی والدہ( بی بی راجہ) کے ذمے قرار دیا ہے۔ جبکہ بچی کے چچا لوگ کہہ رہے ہیں کہ بچی کی پرورش ہم نے کرنی ہے۔ اس لیے بچی ہمارے پاس رہے گی۔ محترم مفتی صاحب شرعی اصولوں کے مطابق راہنمائی فرمائیں کہ کیا بچی اپنی والدہ کے پاس رہے گی یا چچا لوگوں کے پاس رہے گی۔ اور کیا بچی کو اسلام نے کوئی اختیار دیا ہے کہ وہ جس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے رہ سکتی ہے یا نہیں؟

تنقیحات : (1) سائل بیوی کا بھائی ہے اور شرعی اعتبار سے جو حکم ہو اس پر چلنے کے لیے فریقین راضی ہیں۔

(2)  والدہ کو ان کے شوہر کی پنشن ملتی ہے جس سے ان کا گذر بسر بآسانی ہوجاتا ہے۔سب بھائی اکٹھے رہتے تھے  اور جو جو بھائی کماتا ہے وہ اپنی کمائی میں سے والدہ کو پیسے دیتا ہے ۔ مرحوم بھی ہر تنخواہ سے والدہ کو پیسے دیا کرتے تھے ۔

(3) تجہیز و تکفین الاؤنس وفات کے وقت آرمی کے طرف سے آئے ہوئے عملے  نے مرحوم کے بڑے بھائی کے حوالے کر دیا تھا ۔اسی سے مرحوم کی تجہیز و تکفین کی گئی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔سوال کے ساتھ فراہم کی گئی جی ایچ کیو کی رپورٹ کے مطابق مرحوم  کی وفات کے بعد ملنے والے فنڈز درج ذیل ہیں :

1۔Distress Grant (شہادت الاؤنس )

2۔ Funeral Allowance (تجہیز و تکفین الاؤنس)

3۔Self Subscribed insurance (ذاتی ادا کردہ گروپانشورنس)

4۔ DSP fund (ڈی ایس پی فنڈ)

5۔Leave encashment (واجبی چھٹیاں نہ کرنے پر ملنے والی اجرت )

6۔ DHA Flat (ڈی ایچ اے میں گھر کی مد میں ملنے والی رقم )

7.Subsistance Allowance(ادارے  کےکام کے دوران ہونے والے اخراجات کا فنڈ)

8۔ Children Allowance (بچوں کو ملنے والا فنڈ)

ضابطہ:

جو فنڈز میت کی موت سے پہلے واجب الاداء ہوچکے تھے وہ میت کا ترکہ ہیں لہٰذا میت کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوں گے اور جو فنڈز پہلے سے واجب الاداء نہ ہوں بلکہ موت پرحکومت یا کسی ادارے کی جانب سے ہمدردی کی بنیاد پر ملے ہوئے  ہوں وہ ترکہ میں شامل نہیں ہوتے  لہٰذا اگر ادارہ کسی کو ان کے لیے نامزد کر دے تو اسی کا حق ہوتا ہے ۔  اگر نامزد نہ کرے تو زیر کفالت افراد کا حق ہوتے ہیں۔

مذکورہ ضابطے کے مطابق مذکورہ صورت میں بعض فنڈز صرف بیوہ کو ملیں گے ،بعض صرف مرحوم کی بیٹی کو ملیں گے، بعض زیر کفالت افراد کو ملیں گے (مذکورہ صورت میں زیر کفالت افراد میں مرحوم کی بیوہ اور بیٹی شامل  ہیں کیونکہ مرحوم کی والدہ محتاج نہیں ہیں ان کا گذر بسر بآسانی اپنے شوہر کی پنشن سے ہوجاتا ہے) اور بعض شرعی حصوں کے اعتبار سے ورثاء میں تقسیم ہوں گے۔

Funeral Allowance (تجہیز و تکفین الاؤنس)  وفات کےوقت مرحوم کی تجہیز و تکفین پر خرچ کر دیا گیا۔

دیگر فنڈز کی تفصیل درج ذیل ہے:

  1. صرف بیوہ کو ملنے والے فنڈز۔

ا۔ شہادت  الاؤنس(Distress Grant)

ب۔ ڈی ایچ اے میں گھر کی مد میں ملنے والی رقم (DHA Flat )

  1. صرف مرحوم کی بیٹی کو ملنے والے فنڈز۔

ا۔ بچوں کو ملنے والا فنڈ (Children Allowance )

  1. زیر کفالت افراد کو ملنے والے فنڈز۔

ا۔ فیملی پنشن(مرحوم کی بیوہ اور بیٹی کے درمیان برابر تقسیم ہوگی)

  1. شرعی حصوں کے اعتبار سے ورثاء میں تقسیم ہونے والے فنڈز۔

ا۔ ڈی ایس پی فنڈ (DSP fund)

ب۔ واجبی چھٹیاں نہ کرنے پر ملنے والی اجرت (Leave encashment)

ج۔ ادارے کام کے دوران ہونے والے اخراجات کا فنڈ (Subsistance Allowance)

د۔ ذاتی ادا کردہ  گروپ انشورنس(Self Subscribed insurance)

جن فنڈز میں وراثت جاری ہو گی ان کی تقسیم کی صورت یہ ہے کہ ان کے 312 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 39 حصے (12.5%) بیوی کو ،52حصے (16.666%)والدہ کو ،156 حصے (50%) بیٹی کو ،10 حصے (3.205%فی کس) ہر بھائی کو اور 5 حصے (1.602%فی کس) ہر بہن کو ملیں گے ۔

تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

24×13=312

بیویوالدہبیٹی5بھائی3بہنیں
8/16/12/1عصبہ
34125
3×134×1312×135×13
395215665
10 فی کس5 فی کس

2۔مذکورہ صورت میں  راجح اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق چاند کے لحاظ سے نو(9) سال تک بچی ماں کی پرورش میں رہے گی اور نو (9)سال کے بعد شادی تک چچا کی پرورش میں رہے گی اور اس میں بچی کو کوئی اختیار نہیں ، ہاں اگر چچا خود ہی نہ رکھنا چاہے یا چچا کے پاس رہنے کی صورت میں بچی کی دینی تربیت کا کوئی مسئلہ ہو تو الگ بات ہے۔

1۔بدائع الصنائع(7/57) میں ہے:

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو ‌حق ‌للمورث على ما قال عليه الصلاة والسلام من ترك مالا أو حقا فهو لورثته.”

امداد الفتاوی (4/342)میں ہے:

"چوں کہ میراث اموالِ مملوکہ میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسان سرکار کا ہے  بدونِ قبضہ مملوک نہیں ہوتا ،لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں  میراث جاری نہیں ہوگی ،سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہے  تقسیم کردے۔

مسائل بہشتی زیور (2/501) میں ہے :

فیملی پینشن یا کوئی اور فنڈ جو حکومت یا ادارے کی جانب سے ہمدردی کی بنیادوں پر ملے ہوں وہ ترکہ میں شامل نہیں بلکہ صرف ان افراد کا حق ہیں جو میت کے زیر کفالت تھے اور وہ رقم ان افراد میں برابر تقسیم ہوگی ۔البتہ اگر تصریح کی گئی ہو کہ یہ فنڈ صرف فلاں شخص کے لیے ہے تو پھر اس کا حق ہے ۔

حکومت یا ادارے کی طرف سے لکھوالیا جاتا ہے کہ وفات کی صورت میں فلاں عزیز کو واجبات ادا کئے جائیں ۔ اس سے تنہا وہ شخص ان واجبات کا مالک نہیں بنتا بلکہ وہ صرف واسطہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے سے حقداروں کو ان کا حق پہنچایا جائے اور وہ رقم میت کی موت سے پہلے واجب الادا ہو چکی تھی تو تمام وارثوں میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گی اور اگر وہ میت کی موت سے پہلے واجب الادا نہ تھی تو صرف زیر کفالت افراد میں اس کو مساویانہ تقسیم کیا جائے گا ۔

2۔الدر المختار مع ردالمحتار (5/274) میں ہے:

‌والام ‌والجدة لام أو لاب أحق بالصغيرة حتى تحيض أي تبلغ في ظاهر الرواية وغيرهما احق بها حتى تشتهى وقدر بتسع وبه يفتى  ….. وعن محمد ان الحكم في الام والجدة كذلك وبه يفتى لكثرة الفساد والحاصل ان الفتوى على خلاف  ظاهر الرواية

ردالمحتار (3/569) میں ہے:

وإذا استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى، يقدم الأقرب فالأقرب ولا حق لابن العم في حضانة الجارية.”

فتاوی تاتاخانیہ(4/176) میں ہے:

قال:ويجبر الولد الموسر على نفقة أبيه وأمه اذا كانا محتاجين،هكذا ذكر الامام خواهر زاده وشمس الأئمة السرخسي في كتابه

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved