• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تقسیمِ میراث کی ایک صورت

استفتاء

گزارش ہے کہ میرے والد اور والدہ دونوں کے نام ساڑھے تین مرلے کا ایک مکان تھا۔ والد 3 جنوری 1997 کو اور والدہ 2 اپریل 2007 کو انتقال کر گئیں،والدین کے انتقال کے وقت ان کے والدین زندہ نہیں تھے۔ ہماری ایک بہن 2019 میں فوت ہو گئی ان کے شوہر ان سے پہلے فوت ہوگئے تھے۔ان کے سات بچے( 4 بیٹے، 3 بیٹیاں) ہیں۔تقریبا 2004 میں دوسری منزل مکمل اور نچلی منزل کی مرمت ہم دو بھائیوں نے اپنے پیسوں سے کروائی۔ سب بہنوں کی اس  وقت شادی ہوچکی تھی، اب پوچھنا یہ ہے کہ(1) یہ وراثت تمام میں تقسیم ہو گی؟ یا (2)جو پیسے ہم دو بھائیوں نے لگائے وہ ہمیں واپس ملیں گے۔اور ہم سات بہن، بھائی (2بھائی،5 بہنیں) ہیں،جن میں سے ایک فوت ہو چکی ہے۔ براہ مہربانی شرعی اعتبار سے تقسیم کا درست طریقہ بتائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جو پیسے مکان کی  تعمیر میں خرچ ہوئے وہ وراثت سے نکالے جائیں گے اور بقیہ وراثت تقسیم کی جائے گی اور والدین کے انتقال کے وقت چونکہ آپ ساتوں بہن بھائی زندہ تھے اس لیے یہ وراثت ساتوں میں تقسیم ہوگی جس کی تفصیل یہ ہے کہ  وراثت کو 99 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جن میں سے ہر بیٹے کو 22 حصے (22.22فیصد فی کس) اور ہر بیٹی کو 11 حصے (11.11فیصد  فی کس ) اور فوت ہونے والی بہن کی اولاد میں سے ہر بیٹے کو 2 حصے (2.02فیصد فی کس) اور ہر بیٹی کو 1 حصہ (1.01فیصد فی کس) ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved