• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تقسیم میراث کی ایک صورت

میرا نام ***ولد***ہے۔ میرے والد صاحب کا 2007ء میں انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے وارثان میں ہم دو بھائی، تین بہنیں اور والدہ ہیں  اور بوقت انتقال ان كے والدين حيات نہيں تهے۔ ان کا گڈز ٹرانسپورٹ کا کاروبار تھا جس میں ایک شہر سے دوسرے شہر سامان پہنچانا ہوتا ہے۔ ان کی وفات کے وقت بڑا بیٹا میں ہی تھا باقی سب چھوٹے تھے  اور پڑھ رہے تھے  تو سارا کاروبار میں نے سنبھالا اور بہن بھائیوں کی پرورش اور تعلیم کے تمام اخراجات اسی کاروبار سے کیے۔ کاروبار کی نوعیت کمیشن ایجنٹ جیسی ہے جس میں مال بيو پاری کا ہوتا ہے گاڑی جو سامان پہنچاتی ہے وہ کسی اور کی ہوتی ہے جس کے عوض ہم اپنی کمیشن وصول کرتے ہیں۔ 2007ء میں کاروبار اور گھر کی رقم بطور کیش مجھے مبلغ 10 لاکھ روپے ملے ۔ ایک مزدا ٹرک ملا جس کی اس وقت مالیت مبلغ 6 لاکھ تھی اور  اب اس کی مالیت تقریبا 20 لاکھ روپے ہو گئی ہے۔ ایک سوزوکی گاڑی جس کی اس وقت مالیت 6لاکھ تھی اور  اب  10 لاکھ روپے ہو گئی ہے۔ ایک عدد پلاٹ رقبہ تعدادی 1 کنال مالیت اس وقت مبلغ 26 لاکھ اور 2011ء میں مبلغ 85 لاکھ روپے میں فروخت کر دیا ۔ اس میں مزید رقم 5 5 لاکھ روپے شامل کر کے ایک اور پلاٹ خرید لیا جس کی آج مالیت مبلغ 2 کروڑ روپے ہیں ۔ اسی کا روبار سے میں نے اپنی دو بہنوں کی شادیاں کیں اپنے ایک بھائی کی شادی کی اور اپنی شادی بھی کی۔ اپنے بھائی کو ڈاکٹر بنانے کے لئے اندرون ملک اور بیرون ملک تعلیم دلوائی جس پر مبلغ 40 لاکھ روپے خرچ ہوئے ۔ میرا بھائی جو اب ڈاکٹر ہے اس نے میرے ساتھ کاروبار میں کبھی بھی حصہ نہیں لیا۔ اب میں چاہتا ہوں کہ اپنے بھائی بہنوں اور والدہ کو جو شرعی حصہ بنتا ہے ادا کر دوں تا کہ اللہ تعالی کے حضور سرخرو ہو سکوں ۔ ابھی کسی کا مطالبہ نہیں ہے میں خود ہی سب کا حصہ الگ کر کے دینا چاہتا ہوں۔ برائے مہربانی میری راہنمائی فرماتے ہوئے میرے اثاثہ جات جس میں مزدا ٹرک سوزوکی گاڑی، پلاٹ اور کاروبار ہے  میں سے سب کے حصے شرعی طور پر تقیسم کر دیں تا کہ میری راہنمائی ہو سکے، نیز یہ کہ جو اخراجات میں نے بہن بھائیوں پر کیے ہیں وہ مجھے ملیں گے یا سب کچھ وراثت میں تقسیم ہو گا؟ اس سلسلہ میں جناب سے زبانی وتحریری فتوی کی درخواست ہے۔

تنقیحات :ہمارے کاروبار کی صورت یہ تھی کی جگہ کرایہ کی تھی (جس کا ایڈوانس والد صاحب نے دیا ہوا تھا)  جس میں پہلے ہمارے والد کام کرتے تھے پھر میں کام کرتا تھا اور کام میں  ہمیں ادائیگی آگے فورا کرنا پڑتی ہے جبکہ گاہک کی طرف سے ادائیگی بعد میں ہوتی ہے یعنی جب جو شخص اپنا مال بھجوانا چاہتا  ہے ہم اس سے ریٹ طے کرلیتے ہیں  اور عام طور پر  اس وقت پیمنٹ نہیں ہوتی،  پھر  ہم  گاڑی والے سے اس مال کے بھجوانے کا معاملہ طے کرلیتے ہیں اور اس کو پیمنٹ اپنے پاس سے کر دیتے ہیں ہمیں ہمارے گاہک سے پیمنٹ بعد میں ملتی  ہے  چنانچہ سوال میں ذکر گھر کی رقم دس لاکھ سے مراد وہی رقم ہے جو اس کاروبار میں  آگے  گاڑی والوں کو دینے کے لیے استعمال  ہوتی تھی بعد میں بھی  وہی رقم استعمال ہوتی رہی ہے نیز سوال میں ذکر کردہ مزدا بھی اسی کاروبار میں استعمال ہوتا  رہا ہے البتہ سوزوکی گھریلو کاموں  کے لیے استعمال ہوتی تھی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کل مال ورثہ کے درمیان ان کے حصص کے بقدر تقسیم کیا جائے گا البتہ آپ نے تنہا والد کے کاروبار کو آگے بڑھایا ہے تو اس کی اجرتِ مثل آپ لے سکتے ہیں، یعنی جتنی دیر آپ نے کاروبار چلایا ہے اگر اسی کام کے لیے کسی بندے کو اجرت پر رکھا جاتا تو  جتنی رقم اسے  دی جاتی اتنی رقم آپ تقسیمِ ترکہ سے پہلے نکال سکتے ہیں۔

ترکہ کی تقسیم کے لیے کل ترکہ کے 8 حصے کیے جائیں گے جن میں سے ایک حصہ (12.5فیصد) بیوی کا، 1۔1 حصہ (12.5فیصد) ہر بیٹی کا اور 2۔2 حصے (25 فیصد) ہر بیٹے کے ہوں گے۔

صورتِ تقسیم درج ذیل ہے:

8

بیویدو بیٹے3بیٹیاں
8/1عصبہ
12+21+1+1

توجیہ:مرحوم کے انتقال کے بعد کل وراثت میں تمام ورثاء کی شرکِ ملک قائم ہو گئی تھی پھر اس کے بعد جیسے جیسے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے تو نفع میں بھی سب شرکاء اپنے اپنے حصے کے بقدر شریک  ہیں اور درمیا ن میں جو جو خرچہ ہوا اس پر بھی چونکہ سب راضی تھے اس لیے وہ بھی سب کی طرف سے شمار ہو گا  ،اور مذکورہ صورت میں   کام کی صورت  صرف   کمیشن ایجنٹ کی  نہیں بنتی  جس میں مشترکہ مال استعمال نہ ہوا ہو  بلکہ اس کی اصل یہ ہے کہ ایک کا م  کی  گاہک سے اجرت طے کر کے آگے وہی کام کسی اور سے اجرت پر کروانا جس میں مال مشترک استعمال ہوتا رہا چنانچہ  اس دکان کا ایڈوانس ، کاروبار میں استعمال کی رقم اور ایک  مزدا وغیرہ سب مال مشترک تھا لہذا یہاں یہ  نہیں کہہ سکتے کہ اس کاروبار سے باقی ورثاء کا حق متعلق نہیں تھا   لہذا   اب جتنا مال موجود ہے وہ سب شرکاء کے درمیان ان کے حصص کے بقدر تقسیم ہو گا البتہ کاروبار آپ نے اکیلے نے سنبھالا ہے اس لیے  جتنی دیر آپ نے کام کیا ہے اس کی اجرت مثل لینے کی اجازت ہے۔

شامی(6/460)میں ہے:

شرکة ملك وهي ان يملك متعدد عينا او دينا بارث او غيرهما

شامی(9/474)میں ہے:

يقع كثيرا ذكره في التتارخانية وغيرها: مات رجل وترك أولادا صغارا وكبار وامرأة والكبار منها أو من امرأة غيرها فحرث الكبار وزرعوا في أرض الغير كما هو المعتاد والأولاد كلهم في عيال المرأة تتعاهدهم وهم يزرعون ويجمعون الغلات في بيت واحد وينفقون من ذلك جملة صارت هذه واقعة الفتوى: واتفقت الأجوبة أنهم إن زرعوا من بذر مشترك بينهم بإذن الباقين لو كبارا أو إذن الوصي لو صغارا فالغلة مشتركة، وإن من بذر أنفسهم أو بذر مشترك بلا إذن فالغلة للزارعين

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved