• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وصیت اور میراث کے بارے میں ایک سوال

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ                :

1۔  میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے جن کے ورثا میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ، بیوہ ،اور ہمارے دادا جان بھی حیات ہیں جبکہ دادی جان کا انتقال والد مرحوم کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا والد صاحب نے اپنی زندگی میں ایک مکان تعمیر کروایا تھا والد صاحب نے یہ مکان جس جگہ تعمیر کیا تھا وہ جگہ ہمارے دادا جان کی ہے۔ جس کا ایک حصہ زیر تعمیر تھا والد صاحب کا انتقال ہو گیا اس حصہ کو بعد میں ہمارے بڑے بھائی جو بیرون ملک ہوتے ہیں انہوں نے مکمل کروایا تھا اس مکان میں کس وارث کا کتنا حصہ ہے ؟

2۔ ہمارے والد صاحب کی زندگی میں دادا جان کی خدمت کھانا پینا اکثر والد صاحب کرتے تھے تو دادا جان نے والد صاحب کو خود اجازت دی تھی کہ آپ اس جگہ گھر تعمیر کر لیں والدصاحب کے انتقال کے بعد دادا جان نے ہم (پوتوں) کو کہا ہے کہ” تمہارے والد کی وراثت (ایک گھر اور کچھ سامان جو ہمارے تصرف میں ہے) میں میرا جتنا حصہ ہے وہ میں تم (پوتوں) کو دیتا ہوں اور میرا یہ بیٹا (ہمارے والد صاحب) جو فوت ہو گیا ہے میری وفات کے وقت  اس کے زندہ ہونے کی صورت میں میری جائیداد میں سے اس کا جو حصہ بننا  تھا اس  حصے کی وصیت بھی میں تمہیں کرتا ہوں” ہمارے والد صاحب کے چار بھائی حیات ہیں جبکہ بہن کوئی نہیں تھی اب آیا کہ دادا جان نے والد کی وراثت میں سے اپنا حصہ جو ہمیں دیا وہ ہمارا ہو گیا یا نہیں ؟ اور ہمارے والد صاحب کے حصے کی وصیت ہمارے حق میں درست ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے:(1) جس جگہ آپ کے دادا نے  آپ کے والد کو گھر تعمیر کی اجازت دی تھی کیا وہ جگہ بھی آپ کو یا آپ کے والد صاحب کو دیدی تھی یا صرف یہ کہا تھا کہ گھر تعمیر کرلو جگہ  میری ہی رہے گی۔(2) وصیت اور ہبہ  صرف پوتوں کے لیے کیا ہے یا پوتیوں کے لیے بھی کیا ہے؟(3) جس بھائی نے تعمیر مکمل کروائی تھی  وہ اپنے خرچہ کے متعلق کوئی دعویٰ رکھتا ہے یا نہیں؟

جواب وضاحت: (1) صرف گھر تعمیر کرنے کی اجازت  دی  تھی ، زمین ہمارے والد صاحب کے یا ہمارے نام نہیں کی تھی، تاہم وہ زمین ہمارے دادا ہی کی ملکیت ہے اور وہ  دادا کے ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگی۔(2) وصیت  اور ہبہ صرف پوتوں کے لیے کیا ہے۔ (3) بڑا بھائی  اپناخرچہ لینے کا دعوے دار نہیں بلکہ وہ اسے میراث میں شامل کرنا چاہتا ہے۔

نوٹ: دادا سے رابطہ کیا گیا تو اس نے مذکورہ صورتحال کی تصدیق کی تھی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں دادا نے جو جگہ آپ کے والد کو گھر  بنانے کے لیے دی تھی وہ عاریت کے طور پر دی تھی، ملکیت میں نہیں دی تھی اس لیے وہ جگہ تو دادا کی ہے البتہ اس کے اوپر کی تعمیر وراثت میں تقسیم ہوگی لہٰذا  اس مکان کی عمارت  یا اس  عمارت  کی مالیت کے 192 حصے کیے جائیں گے جن میں سے آپ کے دادا کو 32 حصے (16.666 فیصد)،آپ کی والدہ کو 24 حصے (12.5 فیصد) ،مرحوم کی دو بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 17 حصے (8.854 فیصد فی کس) اور مرحوم کے تین بیٹوں میں سے  ہر ایک کو 34 حصے (17.708 فیصد فی کس) دیے جائیں گے۔

تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

24×8=192

والدبیوی3بیٹے2بیٹیاں
سدسثمنعصبہ
6/18/117
4×83×817×8
3224136
34+34+3417+17

نوٹ:  تعمير اور پلاٹ  کی قیمت معلوم کرنے  کا طریقہ یہ ہے کہ اس پلاٹ  کی دو قیمتیں لگوائی جائیں ایک  تعمیر کے بغیر، اور دوسری تعمیر  کے ساتھ ۔ پلاٹ کی قیمت میں  جواضافہ ہوگا وہ تعمیر کی قیمت کہلائے گی۔

2۔مذکورہ صورت میں وہ مال جو آپ کے والد کی وراثت میں سے آپ کے  دادا نے آپ کو دے دیا اور وہ پہلے سے آپ کے تصرف میں ہے چاہے وہ گھر ہو یا سامان دونوں آپ( پوتوں)  کی ملک میں آگیا ہے اور دادا کا اپنے پوتوں کو اس طرح ہدیہ کرنا درست ہے۔

نیز وہ مال جس کی آپ کے دادا نے اپنی جائیداد میں سے  آپ کے نام وصیت کی ہے تو چونکہ آپ شرعی وارث نہیں اس لیے  دادا کے انتقال کے وقت  وہ مال بھی آپ لوگوں کا ہوگا ۔ نیز  اگرچہ جس مال کی وصیت کی گئی ہے وہ کسی قدر مجہول ہے لیکن جہالت وصیت کے منافی نہیں ہے لہذا  جہالت کی وجہ سے یہ وصیت باطل نہ ہوگی۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں دادا نے آپ کے والد کے تعمیر کردہ گھر میں سے اپنا حصہ جو آپ کو ہبہ  کیا وہ  اگر چہ ہبۃ المشاع (مشترکہ چیز کو ہبہ کرنا) ہے جو کہ قابل تقسیم اشیاء میں فاسد ہوتا ہے لیکن ایک روایت جس پر بعض علماء نے فتویٰ بھی دیا ہے یہ ہے کہ ہبۃ المشاع اس وقت فاسد ہوتا ہے جب اجنبی (جو خود شریک نہ ہو) کو کیا جائے، لہٰذا جو جائیداد میں شریک ہو اس کو تقسیم کے بغیر بھی ہبہ کرنا صحیح ہے اس لیے مذکورہ صورت میں ہبہ کرنا درست ہوگیا لیکن وہ پلاٹ جس پر آپ کے والد صاحب نے گھر تعمیر کروایا   وہ آپ کے دادا نے بطور عاریت کے دیا تھا اس لیے وہ پلاٹ بطور عاریت کے آپ کے پاس ہے نہ کہ بطور ملکیت کے۔

الدر المختار (4/570) میں ہے:

(لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لاجنبي ‌لعدم ‌تصور ‌القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب.وفي الصيرفية عن العتابي: وقيل يجوز لشريكه وهو المختار.

الدر المختار (4/570) میں ہے:

(وتجوز بالثلث للاجنبي) ‌عند ‌عدم ‌المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته) ولا تعتبر إجازتهم حال حياته أصلا بل بعد وفاته (وهم كبار)

وفيه أيضا: اذا اوصى ………… وبجزء ‌أو ‌سهم ‌من ‌ماله فالبيان إلى الورثة) يقال لهم أعطوه ما شئتم

وفي الشامية: (قوله: وبجزء إلخ) ‌مثله ‌الحظ والشقص والنصيب والبعض جوهرة

(قوله: فالبيان إلى الورثة إلخ) لأنه مجهول يتناول القليل والكثير والوصية لا تمنع بالجهالة والورثة قائمون مقام الموصي، فكان إليهم بيانه زيلعي

الموسوعۃ الفقہیۃ (30/254) میں ہے:

الوصية للأجنبي ‌بما ‌زاد ‌عن ‌الثلث.

اختلف الفقهاء في الوصية بالزائد على الثلث للأجنبي على قولين:

القول الأول: إن الوصية للأجنبي في القدر الزائد على الثلث تصح وتنعقد، ولكنها تكون موقوفة على إجازة الورثة، فإن لم يكن له ورثة نفذت دون حاجة إلى إجازة أحد، وهذا هو مذهب الحنفية

تبيين الحقائق (6/182) میں ہے:

‌ثم ‌تصح ‌الوصية للأجنبي بالثلث من غير إجازة الوارث ولا تجوز بما زاد على الثلث

بدائع الصنائع (7/ 385)میں ہے:

«وأما بيان حكم الوصية ‌فالوصية ‌في ‌الأصل نوعان: وصية بالمال، ووصية بفعل متعلق بالمال لا يتحقق بدون المال، أما الوصية بالمال فحكمها ثبوت الملك في المال الموصى به للموصى له»

العقود الدریۃ فی  تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ(2/ 81) میں ہے:

(سئل) في رجل بنى بماله لنفسه قصرا في دار أبيه بإذنه ثم مات أبوه عنه وعن ورثة غيره فهل يكون القصر لبانيه ويكون كالمستعير؟

(الجواب) : نعم كما صرح بذلك في حاشية الأشباه من الوقف عند قوله كل ‌من ‌بنى ‌في ‌أرض غيره بأمره فهو لمالكها إلخ ومسألة العمارة كثيرة ذكرها في الفصول العمادية والفصولين وغيرها وعبارة المحشي بعد قوله ويكون كالمستعير فيكلف قلعه متى شاء

الدر المختار مع ردالمحتار (5/681) میں ہے:

"(ولو أعار أرضا للبناء والغرس صح) للعلم بالمنفعة (وله أن يرجع متى شاء) لما تقرر أنها غير لازمة (ويكلفه قلعهما إلا إذا كان فيه مضرة بالأرض فيتركان بالقيمة مقلوعين) لئلا تتلف أرضه.”

بدائع الصنائع(6/216)  میں ہے:

"وأما صفة الحكم فهي أن الملك الثابت للمستعير ملك غير لازم؛ لأنه ملك لا يقابله عوض، فلا يكون لازما كالملك الثابت بالهبة، فكان للمعير أن يرجع في العارية سواء أطلق العارية أو وقت لها وقتا، وعلى هذا إذا استعار من آخر أرضا ليبني عليها أو ليغرس فيها، ثم بدا للمالك أن يخرجه فله ذلك سواء كانت العارية مطلقة أو موقتة، لما قلنا غير أنها إن كانت مطلقة له أن يجبر المستعير على قلع الغرس ونقض البناء؛ لأن في الترك ضررا بالمعير؛ لأنه لا نهاية له، وإذا قلع ونقض لا يضمن المعير شيئا من قيمة الغرس والبناء؛ لأنه لو وجب عليه الضمان لوجب بسبب الغرور، ولا غرور من جهته، حيث أطلق العقدولم يوقت فيه وقتا فأخرجه قبل الوقت، بل هو الذي غرر نفسه حيث حمل المطلق على الأبد.”

امداد الاحکام (4/38)  میں ہے:

اصل مذہب ہبۃ المشاع المنقسم میں  (یعنی ایسی چیز کا ہبہ جو قابل تقسیم ہے اور تقسیم کرکے ہبہ نہیں کی گئی) یہی ہے کہ یہ ہبہ فاسد ہے مگر ایک روایت ہے کہ فساد ہبہ اس وقت ہے جبکہ اجنبی کو ہبہ کیا جائے اور شریک جائیداد کو ہبہ بدون تقسیم کے بھی صحیح ہے اور بعض نے اس کو مختار بھی کہاہے۔

قال في الدر: وفى الصيرفية عن العتابي، وقيل يجوز لشريكه وهو المختار

مگر یہ قول ظاہر مذہب کے خلاف ہے اس لیے بدون مجبوری کے اس پر عمل درست نہیں اور غالباً آجکل تقسیم جائیداد میں جس قدر خرچ اور پریشانی ہوتی ہے وہ مجبوری اور دشواری کی مد میں داخل ہے اس لیے اس صورت میں اگر اس روایت پر عمل کرکے شریک کے لیے ہبہ بدون تقسیم کے صحیح کہا جائے تو گنجائش ہے۔

 

مسائل بہشتی زیور (2/333) میں ہے:

اور اگر وہ چیز (موہوبہ) ایسی ہے کہ تقسیم کرنے کے بعد بھی کام کی ہے جیسے زمین، گھر، کپڑے کا تھان، جلانے کی لکڑی، اناج غلہ، دودھ دہی وغیرہ تو بغیر تقسیم کیے ان کا دینا صحیح نہیں ہے جو اگرچہ اس شے میں اپنے شریک ہی کو دیا ہو ایک اور قول کے مطابق اپنے شریک کو ایسا ہبہ کرنا جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved